بیٹے کو نصیحت |
اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مُستغنی و بے پرواہ سمجھ بیٹھا ہے ''۔ اور حضرت سیِّدُنا حسن بصری علیہ رحمتہ الباری فرماتے ہیں ۔''اعمال حَسَنہ کے بغیر جنّت کی تمنّا رکھناگناہ سے کم نہیں ''۔ اور آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ہی کا ارشاد گرامی ہے ۔ ''حقیقتی بندگی کی علامت یہ ہے کہ بندہ عمل پر اِترانا چھوڑ دے ،نہ کہ عمل کرنا ہی ترک کر دے''۔
سرکارِ دو عالم ، نورِ مُجسّم ، شاہِ بنی آدم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہٖ وسلَّم کا فرمانِ مُعظّم ہے ۔
اَلْکَیَّسُ مَنْ دَانَ نَفْسَہٗ وَ عَمِلَ لِمَا بَعْدَ الْمَوْتِ وَ الْاَحْمَقُ مَنِ اتَّبَعَ نَفْسَہٗ ھَوَاھَا وَتَمَنَّی عَلَی اللہِ
عقل مند اور سمجھدار وہ ہے جو اپنے نفس کا مُحاسبہ کرے ،اور موت کے بعد والی زندگی کے لئے عمل کرے ۔ اور اَحمق و نادان وہ ہے جس نے نفسانی خواہشات کی پیروی کی اور اللہ تعالیٰ ( کی رحمت سے جنّت ملنے کی) اُمید رکھی۔
( فتح الباری : کتاب النکاح . قولہ اذا دخلت لیلاً....اِلخ ج ۹ ص ۳۴۲ دار المعرفۃ بیروت )
حُصولِ علم و مطالعہ کا صحیح مقصد اے پیارے بیٹے!
تُو کتنی ہی راتیں کو جاگ جاگ کر حُصولِ علم میں مشغول و مصروف رہا ۔ اور کتب بینی میں اپنے اوپر نیند حرام کی ۔میں نہیں جانتا کہ تیری اس محنت و مشقت کا سبب کیا تھا ؟اگر تیری نیّت دنیوی فائدے حاصل کرنے ،دنیا کے منصب اور عہدوں کے پانے اوراپنے زمانے کے لوگوں پر اپنی برتری اور بڑائی ظاہرکرنے کی تھی تو، (کان کھول کر سُن لے! ) تیرے لیے ''ہلاکت'' ہے ، تیرے لیے ''بربادی ''ہے ۔اور اگر ان شب بیداریوں میں تیری نیّت یہ تھی کہ تو حبیب ِ پروردگار، امِّت کے مددگار ، شفیع ِروزِ شُمار، جناب ِ ا حمدِمُختار ، عزَّوجلْ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہٖ وسلَّم کی پیاری پیاری شریعت (اورسنّت )کا پیغام عام کریگا ، اپنے کردار و اَخلاق