ترجَمہ کنز ُالایمان: بے شک اللہ کی رحمت نیکوں سے قریب ہے۔ ( الاعراف/ ۵۶)
اور اگر یہ کہا جائے کہ صرف صاحب ِایمان ہونا ہی جنّت میں داخلے کے لیے کافی ہے۔ (اور عمل کی ضرورت نہیں ) تو ہم کہیں گے کہ آپ کا کہنا درست ہے ۔مگر اسے جنّت میں جانا کب نصیب ہو گا ؟ وہاں تک تَو پہنچنے کے لیے اسے کافی دشوار گزار گھاٹیوں اور پُر خار وادیوں کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ جن میں سے پہلا مشکل ترین مرحلہ تو ایمان کی گھاٹی ہے۔کیا خبر یہ اپنا ایمان بھی سلامت لے جانے میں کامیا ب ہوگا یا نہیں ؟اور اگر ( اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے وقتِ نزع اس کا ایمان محفوظ رہااور یہ ) جنّت میں داخل ہو بھی گیا تَو پھر بھی مفلس جنّتی ہوگا ۔جیسا کہ حضرت سیِّدُنا حسن بصری علیہ رحمۃ الباری فرماتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ارشاد فرمائے گا ۔ '' اے میرے بندو! میری رحمت سے جنّت میں داخل ہو جاؤ اور اسے اپنے اعمال کے مطابق تقسیم کر لو ''۔
شانِ رحمتِ خداوندی عزَّ وجل
اے لختِ جگر !
جب تک تُو با عمل نہیں ہو گا اجر و ثواب نہیں پائے گا ۔ منقول ہے کہ بنی اسرائیل کے