نصیحت کرنا تو بہت آسان ہے، مگر اس کو قبول کر کے اس پر عمل کرنا بہت ہی مشکل ہے۔کیونکہ جن لوگوں کے دلوں میں دنیاوی لذّات اور نفسانی خواہشات کا غَلَبہ ہو ،ان کو نصیحت و بھلائی کی باتیں کڑوی لگتی ہیں۔اور خُصوصاً وہ جو رسمی علم کا طالب ہو ، اپنی واہ واہ چاہنے میں مشغول اور دنیاوی شُہرت کے حُصول میں مگن ہو، اس مرض کا زیادہ شکار نظر آتا ہے۔کیونکہ وہ اس گمانِ فاسد میں مُبتَلا ہے کہ صرف حُصول علم ہی اس کی کامیابی اور آخرت میں نجات و چھٹکارے کے لئے کافی ہے، اس طرح وہ اپنے علم پر عمل کو لازم قرار نہیں دیتا ، حالانکہ یہ تو فلسفیوں کا عقیدہ ہے۔یہ شخص اتنا بھی نہیں جانتا کہ علم حاصل کرنے کے بعد اس پر عمل نہ کرنا محشر کے میدان میں شدید پکڑ کا باعث ہو گا۔ جیسا کہ اللہ کے محبوب،دانائے غُیُوب، مُنزَّ ہٌ عن کُلِّ عُیُوب، عزَّوجلْ و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہٖ و سلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے۔
اَشَدُّ النَّاسِ عَذَاباً یَوْمَ الْقِیَامَۃِ عَالِمٌ لَا یَنْفَعُہٗ اللہُ بِعِلْمِہٖ
قیامت کے دن سب سے زیادہ عذاب اُس عالم کو ہوگا جس کے علم سے اللہ تعالیٰ نے اُسے