حُضور مفتی اعظم ہند رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ کو وِصال کیے ہوئے تقریباً آٹھ سال گزر چکے ہیں یہاں کیسے جلوہ نُمائی فرمارہے ہیں ! حیرت و مَسرَّت کے ملے جُلے جذبات کے ساتھ اپنے بڑے بیٹے ( یعنی میرے بڑے بھائی) کو یہ خبر دینے ڈھونڈنے نکلے، جب بڑے بیٹے سے ملاقات ہوئی تو پتا چلا وہ بھی والِد صاحب کو ڈھونڈ رہے تھے،کیونکہ اُنہوں نے بھی یہ منظر دیکھ لیا تھا، چُنانچہ اب دونوں دوبارہ اُسی مَقام پر آئے تو سرکارِ مفتی ٔ اعظم ہند رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ مع مَدَنی قافِلہ تشریف لے جاچکے تھے۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور اُن کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
آقا کے قدموں میں موت
{۲} دوسرا قابلِ صدر شک منظر یہ دیکھا کہ ایک دراز قد، تَنُومَند نوجوان سرکارِ دو جہان صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے آستانِ عرش نشان پر حاضِر تھا اور قَدَمین شریفین میں ہاتھ اُٹھا کر دُعا مانگ رہا تھا کہ یکایک گرا اور سرکار صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے قدموں پر نثار ہوگیا! والِد صاحِب نے بتایا کہ لوگوں کی بھیڑ لگ گئی، مُختلفُ اللِّسان مسلمان اپنی اپنی زَبان میں اُس خوش نصیب نوجوان کی ایمان افروز موت پر رشک کررہے تھے۔ آہ کاش ! ؎
یوں مجھ کو موت آئے تو کیا پوچھنا مِرا
میں خاک پر نگاہ درِ یار کی طرف (ذوقِ نعت)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد