جن سے خود شے مِلک میں آجاتی ہے، مثلاً ہبہ، تملیک، صدقہ، عطیہ، بیع، شرا(1) مگر ان میں قرینہ کی ضرورت ہے کہ گواہ اُسے نکاح سمجھیں۔ (2) (درمختار،عالمگیری)
مسئلہ۲۰: ایک نے دوسرے سے کہا میں نے اپنی یہ لونڈی تجھے ہبہ کی تو اگر یہ پتا چلتا ہے کہ نکاح ہے، مثلاً گواہوں کو بلا کر اُن کے سامنے کہنا اورمہر کا ذکر وغیرہ تو یہ نکاح ہوگيا اور اگرقرینہ نہ ہو، مگر وہ کہتا ہے میں نے نکاح مرادلیا تھا اور جسے ہبہ کی وہ اس کی تصدیق کرتاہے جب بھی نکاح ہے اوراگر وہ تصدیق نہ کرے تو ہبہ قرار دیاجائے گا اور آزاد عورت کی نسبت یہ الفاظ کہے تو نکاح ہی ہے۔ قرینہ کی حاجت نہیں مگر جب ایسا قرینہ پایا جائے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ نکاح نہیں تو نہیں، مثلاً معاذاﷲ کسی عورت سے زنا کی درخواست کی، اُس نے کہا میں نے اپنے کوتجھے ہبہ کر دیا، اس نے کہا قبول کیا تو نکاح نہ ہوا یا لڑکی کے باپ نے کہا یہ لڑکی خدمت کے ليے میں نے تجھے ہبہ کر دی اس نے قبول کیا تو یہ نکاح نہیں، مگر جبکہ اس لفظ سے نکاح مراد لیا تو ہو جائے گا۔ (3) (عالمگیری، ردالمحتار)
مسئلہ ۲۱: عورت سے کہا تو میری ہوگئی، اُس نے کہا ہاں یا میں تیری ہوگئی یا عورت سے کہا بعوض اتنے کے تو میری عورت ہو جا، اُس نے قبول کیا یاعورت نے مرد سے کہا میں نے تجھ سے اپنی شادی کی مرد نے قبول کیا یا مرد نے عورت سے کہا تُو نے اپنے کو میری عورت کیا، اُس نے کہا کیا تو ان سب صورتوں میں نکاح ہو جائے گا۔ (4) (عالمگیری)
مسئلہ۲۲: جس عورت کو بائن طلاق دی ہے، اُس نے گواہوں کے سامنے کہا میں نے اپنے کو تیری طرف واپس کیا، مرد نے قبول کیا نکاح ہوگيا۔(5) (عالمگیری) اجنبی عورت اگریہ لفظ کہے تو نہ ہوگا۔