مسئلہ۱۳: ایجاب و قبول میں ماضی کا لفظ (2)ہونا ضروری ہے، مثلاً یوں کہے کہ میں نے اپنا یا اپنی لڑکی یا اپنی موکلہ(3) کا تجھ سے نکاح کیا یا اِن کو تیرے نکاح میں دیا، وہ کہے میں نے اپنے ليے یا اپنے بیٹے یا مؤکل(4) کے ليے قبول کیا یا ایک طرف سے امر کا صیغہ ہو (5)دوسری طرف سے ماضی کا، مثلاً یوں کہ تو مجھ سے اپنا نکاح کر دے یا تو میری عورت ہو جا، اُس نے کہا میں نے قبول کیا یا زوجیت میں دیا ہو جائے گا یا ایک طرف سے حال کا صیغہ ہو(6) دوسری طرف سے ماضی کا، مثلاً کہے تُو مجھ سے اپنا نکاح کرتی ہے اُس نے کہا کیا تو ہوگيا یا یوں کہ میں تجھ سے نکاح کرتا ہوں اُس نے کہا میں نے قبول کیا تو ہو جائے گا، اِن دونوں صورتوں میں پہلے شخص کو اس کی ضرورت نہیں کہ کہے میں نے قبول کیا۔ اور اگر کہا تُو نے اپنی لڑکی کا مجھ سے نکاح کر دیا اُس نے کہا کر دیا یا کہا ہاں تو جب تک پہلا شخص یہ نہ کہے کہ میں نے قبول کیا نکاح نہ ہوگا اور ان لفظوں سے کہ نکاح کروں گا یا قبول کروں گا نکاح نہیں ہوسکتا۔ (7) (درمختار، عالمگیری وغیرہما)
مسئلہ ۱۴: بعض ایسی صورتیں بھی ہیں جن میں ایک ہی لفظ سے نکاح ہو جائے، مثلاً چچا کی نابالغہ لڑکی سے نکاح کرنا چاہتا ہے اور ولی (8) یہی ہے تو دو گواہوں کے سامنے اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ میں نے اُس سے اپنا نکاح کیا یا لڑکا لڑکی دونوں نابالغ ہیں اورایک ہی شخص دونوں کا ولی ہے یا مرد وعورت دونوں نے ایک شخص کو وکیل کیا ۔ اُس ولی یا وکیل نے یہ کہا کہ میں نے فلاں کا فلاں کے ساتھ نکاح کر دیا ہوگيا۔ اِن سب صورتوں میں قبول کی کچھ حاجت نہیں۔ (9) (جوہرۂ نیرہ)