کے ذریعہ سے یا یوں کہ فلاں بن فلاں بن فلاں کی لڑکی اور اگر اُس کی چند لڑکیاں ہوں تو بڑی یا منجھلی(1) یا سنجھلی (2)یا چھوٹی غرض معین ہو جانا ضرور ہے اور چونکہ ہندوستان میں عورتوں کا نام مجمع میں ذکر کرنا معیوب ہے(3)، لہٰذا یہی پچھلا طریقہ یہاں کے حال کے مناسب ہے۔ (4) (ردالمحتار وغيرہ)
تنبیہ: بعض نکاح خواں کو دیکھا گیا ہے کہ رواج کی وجہ سے نام نہیں لیتے اور نام لینے کو ضروری بھی سمجھتے ہیں، لہٰذا دولہا کے کان میں چپکے سے لڑکی کا نام ذکر کر دیتے ہیں پھر اُن لفظوں سے ایجاب کرتے ہیں کہ فلاں کی لڑکی جس کا نام تجھے معلوم ہے، میں نے اپنی وکالت سے تیرے نکاح میں دی۔ اِس صورت میں اگر اُس کی اور لڑکیاں بھی ہیں تو گواہوں کے سامنے تعیین نہ ہوئی، یہاں تک کہ اگر یوں کہا کہ میں نے اپنی موکلہ تیرے نکاح میں دی یا جس عورت نے اپنا اختیار مجھے دے دیا ہے، اُسے تیرے نکاح میں دیا تو فتویٰ اس پر ہے کہ نکاح نہ ہوا۔
مسئلہ ۵۳: ایک شخص کی دو لڑکیاں ہیں اور نکاح پڑھانے والے نے کہا کہ فلاں کی لڑکی تیرے نکاح میں دی ،تو اُن میں اگر ایک کا نکاح ہو چکا ہے تو ہوگيا کہ وہ جو باقی ہے وہی مراد ہے۔ (5) (ردالمحتار)
مسئلہ ۵۴: وکیل نے موکلہ کے باپ کے نام میں غلطی کی اور موکلہ کی طرف اشارہ بھی نہ ہو تو نکاح نہیں ہوا۔ يوہيں اگر لڑکی کے نام میں غلطی کرے جب بھی نہ ہوا۔ (6) (درمختار)
مسئلہ ۵۵: کسی کی دو لڑکیاں ہیں، بڑی کا نکاح کر نا چاہتا ہے اور نام لے دیا چھوٹی کا تو چھوٹی کا نکاح ہوا اور اگر کہا بڑی لڑکی جس کا نام یہ ہے اور نام لیا چھوٹی کا تو کسی کا نہ ہوا۔ (7) (درمختار، ردالمحتار)
مسئلہ ۵۶: لڑکی کے باپ نے لڑکے کے باپ سے صرف اتنے لفظ کہے، کہ میں نے اپنی لڑکی کا نکاح کیا، لڑکے کے باپ نے کہا میں نے قبول کیا تو یہ نکاح لڑکے کے باپ سے ہوا اگرچہ پیشتر (8)سے خود لڑکے کی نسبت(9) وغیرہ ہو چکی ہو اور اگر یوں کہا، میں نے اپنی لڑکی کا نکاح تیرے لڑکے سے کیا، اُس نے کہا، میں نے قبول کیا تو اب لڑکے سے ہوا، اگرچہ اُس نے یہ نہ