بہارِشریعت حصّہ ہفتم (7) |
مسئلہ۵۱: یہ جو تمام ہندوستان میں عام طور پر رواج پڑا ہوا ہے کہ عورت سے ایک شخص اذن (1)لے کر آتا ہے جسے وکیل کہتے ہیں، وہ نکاح پڑھانے والے سے کہہ دیتا ہے میں فلاں کا وکیل ہوں آپ کو اجازت دیتا ہوں کہ نکاح پڑھا ديجيے۔ یہ طریقہ محض غلط ہے۔ وکیل کو یہ اختیارنہیں کہ اُس کام کے ليے دوسرے کو وکیل بنا دے، اگر ایسا کیا تو نکاح فضولی ہوا اجازت پر موقوف ہے، اجازت سے پہلے مرد و عورت ہر ایک کو توڑ دینے کا اختیار حاصل ہے بلکہ یوں چاہيے کہ جو پڑھائے وہ عورت یا اُس کے ولی کا وکیل بنے (2) خواہ یہ خود اُس کے پاس جا کر وکالت حاصل کرے یا دوسرا اس کی وکالت کے ليے اذن لائے کہ فلاں بن فلاں بن فلاں کو تُو نے وکیل کیا کہ وہ تیرا نکاح فلاں بن فلاں بن فلاں سے کر دے۔ عورت کہے ہاں۔
(منکوحہ کی تعیین)
مسئلہ ۵۲: یہ امر بھی ضروری ہے کہ منکوحہ گواہوں کو معلوم ہو جائے یعنی یہ کہ فلاں عورت سے نکاح ہوتا ہے، اس کے دو۲ طریقے ہیں۔ ایک یہ کہ اگر وہ مجلسِ عقد میں موجود ہے توا س کی طرف نکاح پڑھانے والا اشارہ کر کے کہے کہ میں نے اِس کو تیرے نکاح میں دیا اگرچہ عورت کے مونھ پر نقاب پڑا ہو،(3) بس اشارہ کافی ہے اور اس صورت میں اگر اُس کے یا اُس کے باپ دادا کے نام میں غلطی بھی ہو جائے تو کچھ حرج نہیں، کہ اشارہ کے بعد اب کسی نام وغیرہ کی ضرورت نہیں اور اشارے کی تعیین کے مقابل کوئی تعیین نہیں۔ دوسری صورت معلوم کرنے کی یہ ہے کہ عورت اور اُس کے باپ اور دادا کے نام ليے جائیں کہ فلانہ بنت فلاں بن فلاں اور اگر صرف اُسی کے نام لینے سے گواہوں کو معلوم ہو جائے کہ فلانی عورت سے نکاح ہوا تو باپ دادا کے نام لینے کی ضرورت نہیں پھر بھی احتیاط اِس میں ہے کہ اُن کے نام بھی ليے جائیں اور اس کی اصلاً ضرورت نہیں کہ اُسے پہچانتے ہوں بلکہ یہ جاننا کافی ہے کہ فلانی اور فلاں کی بیٹی فلاں کی پوتی ہے اور اِس صورت میں اگر اُس کے یا اُس کے باپ دادا کے نام میں غلطی ہوئی تو نکاح نہ ہوا اور ہماری غرض نام لینے سے یہ نہیں کہ ضرور اُس کا نام ہی لیا جائے، بلکہ مقصود یہ ہے کہ تعیین ہو جائے، خواہ نام
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ 1۔۔۔۔۔۔ یعنی اجازت۔ 2۔۔۔۔۔۔ یا پھر عورت کا وکیل اس بات کی بھی اجازت حاصل کرے کہ وہ نکاح پڑھانے کے لیے دوسرے کو وکیل بناسکتا ہے۔ 3۔۔۔۔۔۔ اعلیٰ حضرت، امامِ احمد رضاخان علیہ رحمۃ الرحمن ''فتاویٰ رضویہ'' جلد11صفحہ112پر فرماتے ہیں: احوط یہ ہے کہ وہ چہرہ کھلا رکھے۔...عِلْمِیہ