تونہ ہوا۔ يوہيں اگر بالغہ کا نکاح اُس کی اجازت سے باپ نے ایک شخص کے سامنے پڑھایا، اگر لڑکی وقت عقد (1) موجود تھی ہوگيا ورنہ نہیں۔ يوہيں اگر عورت نے کسی کو اپنے نکاح کا وکیل کیا، اُس نے ایک شخص کے سامنے پڑھا دیا تو اگر موکلہ موجود ہے ہوگيا ورنہ نہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ موکل اگر بوقتِ عقد موجود ہے تو اگرچہ وکیل عقد کر رہا ہے مگر موکل عاقد قرار پائے گا اوروکیل گواہ مگر یہ ضرور ہے کہ گواہی دیتے وقت اگر وکیل نے کہا، میں نے پڑھایا ہے تو شہادت نا مقبول ہے کہ یہ خود اپنے فعل کی شہادت ہوئی۔ (2) (درمختار وغیرہ)
مسئلہ ۴۶: مولیٰ (3)نے اپنی باندی (4) یا غلام کا ایک شخص کے سامنے نکاح کیا ،تو اگرچہ وہ موجود ہو نکاح نہ ہوا اور اگر اُسے نکاح کی اجازت دے دی پھر اُس کی موجودگی میں ایک شخص کے سامنے نکاح کیا تو ہو جائے گا۔ (5) (درمختار)
مسئلہ ۴۷: گواہوں کا ایجاب و قبول کے وقت ہونا شرط ہے، فلہذا اگر نکاح اجازت پر موقوف ہے اور ایجاب و قبول گواہوں کے سامنے ہوئے اور اجازت کے وقت نہ تھے ہوگيا اور اس کا عکس ہوا تو نہیں۔ (6) (عالمگیری)
مسئلہ ۴۸: گواہ اُسی کو نہیں کہتے جو دو شخص مجلسِ عقد میں مقرر کر ليے جاتے ہیں، بلکہ وہ تمام حاضرین گواہ ہیں جنھوں نے ایجاب و قبول سُنا اگر قابلِ شہادت(7) ہوں۔
مسئلہ ۴۹: ایک گھر میں نکاح ہوا اور یہاں گواہ نہیں، دوسرے مکان میں کچھ لوگ ہیں جن کو اُنھوں نے گواہ نہیں بنایا مگر وہ وہاں سے سُن رہے ہیں، اگر وہ لوگ اُنھيں دیکھ بھی رہے ہوں تو اُن کی گواہی مقبول ہے ورنہ نہیں۔ (8) (عالمگیری)
مسئلہ ۵۰: عورت سے اذن لیتے وقت گواہوں کی ضرورت نہیں یعنی اُس وقت اگر گواہ نہ بھی ہوں اور نکاح پڑھاتے وقت ہوں تو نکاح ہوگيا، البتہ اذن کے ليے گواہوں کی یوں حاجت ہے کہ اگر اُس نے انکار کر دیا اوریہ کہا کہ میں نے اذن نہیں دیا تھا تو اب گواہوں سے اس کا اذن دینا ثابت ہو جائے گا۔ (9) (عالمگیری، ردالمحتار وغیرہما)