Brailvi Books

بہارِشریعت حصّہ ہفتم (7)
-45 - 106
107    شرکتِ جبری:   شرکتِ جبری یہ ہے کہ دونوں کا مال بغیر ارادہ واختیار کے آپس میں ایسا مل جائے کہ ہر ایک کی چیز دوسرے سے ممتاز(متفرق،جدا) نہ ہوسکے یا ہوسکے مگر نہایت دقت ودشواری کیساتھ مثلاً وراثت میں دونوں کو ترکہ ملا کہ ہرایک کا حصہ دوسرے سے ممتاز نہیں یاایک کے پاس گندم تھی دوسرے کے پاس جو اور وہ آپس میں مل گئے۔

(ماخوذ ازبہارشریعت ،ج۲،حصہ ۱۰ ،ص۴۸۹)

108    شرکت صنائع    دیکھیے شرکت بالعمل۔

109    شرکتِ عقد     شرکتِ عقدیہ ہے کہ دو شخص باہم کسی چیز میں شرکت کا عقد کریں مثلاًایک کہے میں تیرا شریک ہوں دوسرا کہے مجھے منظور ہے۔ (ماخوذ ازبہارشریعت ،ج۲،حصہ ۱۰ ،ص۴۸۹)

110    شرکتِ عنان    شرکتِ عنان یہ ہے کہ دو شخص کسی خاص نوع کی تجارت،یاہر قسم کی تجارت میں شرکت کریں مگر ہر ایک دوسرے کا ضامن نہ ہو، صرف دونوں شریک آپس میں ایک دوسرے کے وکیل ہوں گے۔(ماخوذ ازبہارشریعت ،ج۲،حصہ ۱۰ ،ص۴۹۸)

111    شرکت مفاوضہ یہ ہے کہ ہر ایک دوسرے کا وکیل و کفیل ہو یعنی ہر ایک کا مطالبہ دوسرا وصول کرسکتا ہے اور ہر ایک پر جو مطالبہ ہوگا دوسرا اُسکی طرف سے ضامن ہے اور شرکتِ مفاوضہ میں یہ ضرور ہے کہ دونوں کے مال برابر ہوں اورنفع میں دونوں برابر کے شریک ہوں اور تصرف و دَین میں بھی مساوات ہو، لہٰذا آزادو غلام میں اور نابالغ وبالغ میں اور مسلمان و کافر میں اور عاقل و مجنون میں اور دو نابالغوں میں اور دو غلاموں میں شرکت مفاوضہ نہیں ہوسکتی۔ (بہارشریعت ،ج۲،حصہ ۱۰ ،ص۴۹۱)

112    شرکتِ ملک:  شرکتِ ملک یہ ہے کہ چند شخص ایک چیزکے مالک ہوں اور باہم عقد شرکت نہ ہوا ہو۔(ماخوذ ازبہارشریعت ،ج۲،حصہ ۱۰ ،ص۴۸۹)

113     شرکتِ وجوہ:  شرکتِ وجوہ یہ ہے کہ دونوں بغیر مال عقدِ شرکت کریں کہ اپنی وجاہت اور آبرو کی وجہ سے دُکانداروں سے اُدھار خریدلائیں گے اور مال بیچ کر اُن کے دام دیدیں گے اورجو کچھ باقی بچے گا آپس میں بانٹ لیں گے۔ (بہارشریعت ،ج۲،حصہ ۱۰ ،ص۵۰۹)

114    شُفعہ    غیرمَنْقول جائیداد کوکسی شخص نے جتنے میں خریدااُتنے ہی میں اس جائیدادکے مالک ہونے کاحق جودوسرے شخص کوحاصل ہو جاتا ہے اس کو شفعہ کہتے ہیں۔ ( بہارشریعت، حصہ ۱۵، ص۴۷)

115    شفِیع:   شُفَعہ کر نے والا۔

116    شَہادت :  کسی حق کے ثابت کرنے کے لیے مجلس قاضی میں(یعنی قاضی کے سامنے) لفظ شہادت کے ساتھ سچی خبر دینے کو شہادت یا گواہی کہتے ہیں۔ ( بہارشریعت ،ج۲،حصہ ۱۲ ،ص۹۳۰)