Brailvi Books

بہارِشریعت حصّہ چہاردَہم (14)
9 - 186
ہے یعنی مضارِب نے اپنے مال کومالِ مضارَبت میں مِلا دیا مگر چونکہ رب المال نے کہہ دیا تھا کہ اپنی رائے سے کا م کرو لہٰذا اس کو ملادینے کا اختیار تھا۔ اب یہ کپڑا فروخت ہوا اس میں رنگ کی قیمت کا جو حصہ ہے وہ تنہا مضارِب کا ہے اور خالی سفید کپڑے کا جو ثمن ہوگا وہ مضارَبت کے طور پر ہوگا مثلاًوہ تھان اس وقت دس۱۰ روپے میں فروخت ہوا اور رنگا ہوانہ ہوتا تو آٹھ روپے میں بکتا، دو روپے مضارِب کے ہیں اور آٹھ روپے مضارَبت کے طور پر اور اگر رب المال نے یہ نہیں کہا تھا کہ تم اپنی رائے سے کام کرو تو مضارِب شریک نہیں بلکہ غاصب ہوگا۔(1) (درمختار)

اور اس پچھلی صورت میں مالک کو اختیارہے کہ کپڑالے کر زیادتی کا معاوضہ دیدے یا سفید کپڑے کی قیمت مضارب سے تاوان لے۔ (2) (عالمگیری)

    مسئلہ ۲۴: کل روپے کا کپڑا خریدلیا بار برداری(3)یا دھلائی وغیرہ اپنے پاس سے خرچ کی تو مُتَبَرِّع (4)ہے کہ نہ اس کا معاوضہ ملے گانہ اسکی وجہ سے تاوان دینا پڑے گا۔(5) (عالمگیری)

    مسئلہ ۲۵: مضارِب کو یہ اختیار نہیں کہ کسی سے قرض لے اگرچہ رب المال نے صاف لفظوں میں قرض لینے کی اجازت دیدی ہو کیونکہ قرض لینے کے لیے وکیل کرنا بھی درست نہیں اگر قرض لے گا تواس کا ذمہ دار یہ خو د ہوگا رب المال سے اس کا تعلق نہیں ہو گا۔(6) (ردالمحتار)

    مسئلہ ۲۶: مضارِب ایسا کام نہیں کرسکتا جس میں ضرر ہو،نہ وہ کام کرسکتا ہے جو تجار نہ کرتے ہوں، نہ ایسی میعادپر بیع کرسکتا ہے جس میعادپر تاجر نہیں بیچتے ہوں اور دو شخصوں کو مضارِب کیا ہے تو تنہا ایک بیع وشرا (7) نہیں کرسکتا، جب تک اپنے ساتھی سے اِجازت نہ لے لے۔(8) (بحر)

    مسئلہ ۲۷: اگر بیع فاسد کے ساتھ کوئی چیز خریدی جس میں قبضہ کرنے سے مِلک ہوجاتی ہے یہ مخالفت نہیں ہے اور وہ چیز مضارَبت ہی کی کہلائے گی اور غبن فاحش کے ساتھ خریدی تو مخالفت ہے اور یہ چیز صرف مضارِب کی مِلک ہوگی اگرچہ مالک
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

1۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''،کتاب المضاربۃ،ج۸،ص۵۰۵.

2۔۔۔۔۔۔''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب المضاربۃ،الباب التاسع فی الاستدانۃ...إلخ، ج۴،ص۳۰۶.

3۔۔۔۔۔۔مزدوری۔        4۔۔۔۔۔۔ احسان کرنے والا۔

5۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ'' ،کتاب المضاربۃ،الباب التاسع فی الاستدانۃ...إلخ، ج۴،ص۳۰۶.

6۔۔۔۔۔۔ ''ردالمحتار''،کتاب المضاربۃ،ج۸،ص۵۰۶.

7۔۔۔۔۔۔یعنی خریدو فروخت۔

8۔۔۔۔۔۔ ''البحرالرائق''،کتاب المضاربۃ،ج۷،ص۴۵۰.
Flag Counter