نہیں اور اگر اس نے خرید لیں تو ایک ہزارکی چیزیں مضارَبت کی ہیں باقی چیزیں خاص مضارِب کی ہیں نقصان ہوگا تو ان چیزوں کے مقابلہ میں جو کچھ نقصان ہے وہ تنہا مضارِب کے ذمہ ہے اور ان کا نفع بھی تنہا مضارِب ہی کو ملے گا اور ان چیزوں کو مال مضارَبت میں خلط کرنے (1)سے مضارِب پر ضمان لازم نہ ہوگا۔(2) (خانیہ)
مسئلہ ۲۱: رب المال نے روپے دیے تھے اور مضارِب نے اشرفی (3)سے چیزیں خریدیں یا اشرفیاں دی تھیں اور مضارِب نے روپے سے چیزیں خریدیں تو یہ چیزیں مضاربت ہی کی قرار پائیں گی کہ روپیہ اور اشرفی اس باب میں ایک ہی جنس ہیں اور اگر رب المال نے روپیہ یا اشرفی دی تھی اور مضارِب نے غیر نقود(4)سے چیزیں خریدیں تو یہ چیزیں مضاربت کی نہیں بلکہ خاص مضارِب کی ہوں گی۔(5) (عالمگیری)
مسئلہ ۲۲: رب المال نے اشرفیاں دی تھیں مضارِب نے روپے سے چیزیں خریدیں مگر یہ روپے اشرفیوں کی قیمت سے زیادہ ہیں تو جتنے زیادہ ہیں ان کی چیزیں خاص مضارِب کی ملک ہیں اور مضارِب اس صورت میں مضاربت میں شریک ہو جائے گااور اگر وہ روپے اشرفیوں کی قیمت کے تھے مگر خریدنے کے بعد ثمن ادا کرنے سے پہلے اشرفیوں کا نرخ اوتر گیا (6)تو یہ نقصان مال مضاربت میں قرار پائے گا اشرفیاں بھنا کر (7)ثمن ادا کرے اور جو کمی پڑے مال بیچ کر بائع(8)کا بقیہ ثمن ادا کرے۔ (9) (عالمگیری)
مسئلہ ۲۳: مضارِب نے پورے مال مضاربت سے کپڑا خریدا اور اُس کو اپنے پاس سے دھلوایا یا مال مضاربت کو لادکر دوسری جگہ لے گیا اور کرایہ اپنے پاس سے خرچ کیا اگر مضارِب سے رب المال نے کہا تھا کہ تم اپنی رائے سے کام کرو یہ مضارِب مُتَبَرِّع ہے یعنی ان چیزوں کا اُسے کوئی معاوَضہ نہیں ملے گا کیونکہ استدانہ(10)کا اُسے اختیار نہ تھا اور اگر کپڑے کو سُرخ رنگ دیا یا دھلوا کر اُس میں کلپ چڑھایا(11)تو اس رنگ یا کلپ کی وجہ سے جو کچھ اُس کی قیمت میں اضافہ ہو گا اُتنے کا یہ شریک