بہارِشریعت حصّہ اول (1) |
مسئلہ (۱): قضا و قدر کے مسائل عام عقلوں میں نہیں آسکتے، ان میں زیادہ غور و فکر کرنا سببِ ھلاکت ہے، صدیق وفاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنھما اس مسئلہ میں بحث کرنے سے منع فرمائے گئے۔ (1) ما و شما (2) کس گنتی میں ...! اتنا سمجھ لو کہ اﷲ تعالیٰ نے آدمی کو مثلِ پتھر اور دیگر جمادات کے بے حس و حرکت نہیں پیدا کیا، بلکہ اس کو ایک نوعِ اختیار (3) دیا ہے کہ ایک کام چاہے کرے، چاہے نہ کرے اور اس کے ساتھ ہی عقل بھی دی ہے کہ بھلے، بُرے، نفع، نقصان کو پہچان سکے اور ہر قسم کے سامان اور اسباب مہیا کر دیے ہیں، کہ جب کوئی کام کرنا چاہتا ہے اُسی قسم کے سامان مہیّا ہو جاتے ہیں اور اسی بنا پر اُس پر مؤاخذہ ہے۔ (4)
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ 1۔۔۔۔۔۔ عن ثوبان قال: اجتمع أربعون رجلاً من الصحابۃ ینظرون في القدر والجبر، فیہم أبو بکر وعمر رضي اللہ تعالی عنھما، فنزل الروح الأمین جبریل فقال: یا محمد! اخرج علی أمتک فقد أحدثوا، فخرج علیہم في ساعۃ لم یکن یخرج علیہم فیھا، فأنکروا ذلک منہ وخرج علیہم ملتمعا لونہ متوردۃ وجنتاہ کأنما تفقأ بحب الرمان الحامض، فنہضوا إلی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حاسرین أذرعہم ترعد أکفہم و أذرعہم، فقالوا: تبنا إلی اللہ و رسولہ فقال: ((أولی لکم إن کدتم لتوجبون، أتاني الروح الأمین فقال: أخرج علی أمتک یا محمد فقد أحدثت)). رواہ الطبراني في ''المعجم الکبیر''، الحدیث: ۱۴۲۳، ج۲، ص۹۵. عن أبي ہریرۃ قال: خرج علینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ونحن نتنازع في القدر، فغضب حتی احمرّ وجہہ حتی کأنّما فقیء في وجنتیہ الرمان، فقال: ((أبھذا أمرتم أم بھذا أرسلت إلیکم؟ إنما ھلک من کان قبلکم حین تنازعوا في ھذا الأمر، عزمت علیکم ألاّ تنازعوا فیہ)). ''سنن الترمذي''، کتاب القدر، باب ما جاء من التشدید... إلخ، الحدیث:۲۱۴۰، ج۴، ص۵۱. 2۔۔۔۔۔۔ ہم اور آپ۔ 3۔۔۔۔۔۔ ایک طرح کا اختیار۔ 4۔۔۔۔۔۔ في ''منح الروض الأزہر''، ص۴۲۔۴۳: (فللعباد أفعال اختیاریۃ یثابون علیہا إن کانت طاعۃ، ویعاقبون علیہا إن کانت معصیۃ، لا کما زعمت الجبریۃ أن لا فعل للعبد أصلا کسبا ولا خلقا، وأنّ حرکاتہ بمنزلۃ حرکات الجمادات لا قدرۃَ لہ علیہا، لا مؤثرۃ، ولا کاسبۃ في مقام الاعتبار ولا قصد ولا إرادۃ ولا اختیار، وھذا باطل، لأنّا نفرق بین حرکۃ البطش وحرکۃ الرعش، ونعلم أنّ الأول باختیارہ دون الثاني لاضطرارہ). في ''الحدیقۃ الندیۃ''، ج۱،ص۲۶۲:(للعباد) المکلفین بالأمر والنہي(اختیارات لأفعالہم بہا، یثابون) أي: یثیبہم اللہ تعالی یوم القیامۃ علی ما صدر منھم من الخیر مما خلقہ اللہ تعالی منسوبا إلیہم بسبب خلق اللہ تعالی إرادتہم لہ، (علیہا)، أي: لأجل تلک الاختیارات، (یعاقبون) أي: یعاقبہم اللہ تعالی یوم القیامۃ حیث صدر منھم بہا أفعالا من الشر خلقہا تعالی لہم منسوبۃ إلیہم بسبب خلقہ إرادتہم لہا وحیث ثبت أنّ للإنسان اختیارا خلقہ اللہ تعالی فیہ، فقد انتفی مذہب الجبریۃ القائلین بأن الإنسان مجبور علی فعل الخیر والشر، ثم إنّ ذلک الاختیار الذي خلقہ اللہ تعالی في الإنسان بخلق اللہ تعالی عندہ لا بہ، ولا فیہ، ولا منہ أفعال الخیر والشر، فینسبہا للإنسان فیکون اختیار الإنسان المخلوق فیہ بمنزلۃ یدہ المخلوقۃ لہ بحیث لا تأثیر