ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
والمطلق یکون في علم اللہ مؤبدًا أو مقیدًا، وھذا الأخیر ہوالذي یأتیہ النسخ فیظن أنّ الحکم تبدل؛ لأنّ المطلق یکون ظاہرہ التأبید حتی سبق إلی بعض الخواطر أنّ النسخ رفع الحکم، وإنّما ہو بیان مدتہ عندنا وعند المحققین، کذلک الأحکام التکوینیۃ سواء بسوائ، فمقید صراحۃ کأن یقال لملک الموت علیہ الصلاۃ والسلام:اقبض روح فلان في الوقت الفلاني إلاّ أن یدعو فلان، مطلق نافذ في علم اللہ تعالی وہو المبرم حقیقۃ، ومصروف بدعاء مثلا وہو المعلق الشبیہ بالمبرم، فیکون مبرماً في ظن الخلق لعدم الإشارۃ إلی التقیید معلّقا في الواقع، فالمراد في الحدیث الشریف ہو ھذا، أمّا المبرم الحقیقي فلا رادّ لقضائہ ولا معقب لحکمہ وإلاّ لزم الجھل، تعالی اللہ عن ذلک علوا کبیرا، فاحفظ ھذا فلعلک لا تجدہ إلاّ منّا، وباللہ التوفیق. ۱۲ إمام أھل السنۃ رضی اللہ تعالی عنہ.
یعنی: (میں کہتا ہوں): ابو الشیخ نے کتاب الثواب میں انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ '' دعا کی کثرت کرو اس لئے کہ دعا قضاء مبرم کو ٹال دیتی ہے''۔ اوردیلمی نے ''مسند الفردوس'' میں ابو موسی اشعری رضی اللہ تعالی عنہ سے اور ابن عساکر نے نمیر بن اوس اشعری رضی اللہ تعالی عنہ سے مرسلا دونوں نے نبی علیہ السلام سے روایت کیا فرمایا: ''دعا اللہ کے لشکروں میں سے ایک ساز وسامان والا لشکر ہے جو قضاء کو مبرم ہونے کے بعد ٹال دیتا ہے''۔ اور اس مقام کی تحقیق اس طور پر جو مجھے ملک علام (اللہ تبارک وتعالی) نے الہام کی وہ یہ ہے کہ احکامِ الہیہ تشریعیہ جیسا کہ آگے آئیں گے دو وجہوں پر ہیں پھلا مطلق جس میں کسی وقت کی قید نہیں جیسے عام احکام (دوسرا) وقت کے ساتھ مقید جیسے اللہ تعالی کا فرمان:ترجمہ کنزالایمان، سورۃ النساء آیت ۵۱: پھر اگر وہ گواہی دے دیں تو ان عورتوں کو گھر میں بند رکھو یہاں تک کہ انہیں موت اٹھا لے یا اللہ ان کی کچھ راہ نکالے۔ تو جب قرآن میں زنا کی حد نازل ہوئی حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھ سے لے لو بیشک اللہ نے ان عورتوں کے لئے سبیل مقرر فرمائی ۔ الحدیث۔ اس کو روایت کیا مسلم وغیرہ نے عبادہ رضی اللہ عنہ سے، اور مطلق علم الٰہی میں یا تو مؤبد ہوتا ہے یعنی ہر زمانے کے لئے (یامقید) یعنی کسی خاص زمانے کے لئے اور یہی اخیر حکم وہ ہے جس میں نسخ آتا ہے، گمان یہ ہوتا ہے کہ حکم بدل گیا اس لئے کہ مطلق (جس میں کسی وقت کی قید نہ ہو) کا ظاہر مؤبد ہے یعنی ہمیشہ کے لئے ہونا ہے یہا ں تک کہ کچھ اذہان کی طرف اس خیال نے سبقت کی کہ نسخ حکم کو اٹھا دینے کا نام ہے اور ھمارے نزدیک اور محققین کے نزدیک وہ حکم کی مدت بیان کرنا ہے، اور احکام تکوینیہ بھی اسی طرح برابر (یعنی دو قسموں پر) ہیں تو ایک وہ جو صراحۃً مقید ہو جیسے ملک الموت علیہ الصلوۃ والسلام سے کہا جائے کہ فلاں کی روح فلاں وقت میں قبض کر مگر یہ کہ فلاں اس کے حق میں دعا کرے( تو اس وقت میں قبض نہ کر)، اور دوسرا مطلق ہے جو علمِ الٰہی میں نافذ ہونے والا ہے اور یہی حقیقۃً مبرم ہے ،اور قضاء کی ایک قسم وہ ہے جو مثلاً کسی کی دعا سے ٹل جائے اور وہ معلق مشابہ مبرم ہے تو (یہ قسم) مخلوق کے گمان میں مبرم ہوتی ہے اس لئے کہ اس میں قید وقت کا اشارہ نہیں اور واقع میں (کسی شرط پر) معلق ہوتی ہے اور مراد حدیث شریف میں یہی ہے، رہا مبرم حقیقی تو (وہ مراد نہیں) اس لئے کہ اللہ تعالی کی قضاء ِ(مبرم) کو کوئی ٹالنے والا نہیں اور کوئی اس کے حکم کو باطل کرنے والا نہیں ورنہ جھل باری لازم آئے گا اللہ تعالی اس سے بہت بلند ہے اس کو یاد رکھو اس لئے کہ شاید یہ تمہیں ھمارے سوا کسی اور سے نہ ملے۔ اللہ ہی توفیق دینے والا ہے ۔ ۱۲
وانظر لتفصیل ہذہ المسألۃ: ''أحسن الوعاء لآداب الدعاء'' و''ذیل المدعا لأحسن الوعاء''، ص۱۲۷۔۱۳۱۔