Brailvi Books

بہارِشریعت حصّہ اول (1)
16 - 278
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اسی کی نسبت حدیث میں ارشاد ہوا:
 ((إِنَّ الدُّعَاءَ یَرُدُّ القَضَاءَ بَعْدَ مَا اُبْرِمَ)).(1)
''بیشک دُعا قضائے مُبرم کو ٹال دیتی ہے۔''
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

کسی چیز سے بآسانی ٹل جائے، پس مجھے ایک قسم کی مایوسی ہوئی تو پیر دستگیر سید محی الدین قدس سرہ النورانی کا ارشاد دوبارہ یاد آگیا تو میں نے دوبارہ حق تعالی کی بارگاہ میں آہ وزاری اور عجزوانکساری کی تو مجھے محض فضل وکرم سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ قضائے معلق کی دو قسمیں ہیں ایک قسم قضائے معلق کی وہ ہے کہ اس کی تعلیق لوح محفوظ میں ظاہر کی گئی ہے اور فرشتگانِ الہی کو اس کی اطلاع دی گئی ہے اور دوسری قسم قضائے معلق کی وہ ہے کہ اس کی تعلیق خدائے بزرگ وبرتر کے نزدیک ہے اور لوح محفوظ میں وہ قضائے مبرم کی صورت رکھتی ہے،(در حقیقت یہ قسم نہ تو مطلق معلق ہے اور نہ مطلق مبرم بلکہ مشابہ بہ مبرم ہے جو کہ بظاہر لوح محفوظ میں مطلق نظر آتی ہے لیکن حقیقت میں مشروط بشرط ہوتی ہے اور بسا اوقات یہ خاصانِ خدا کی دعاؤں سے ٹل جاتی ہے، حاشیہ بر مکتوب بتصرف ما) اور یہ بھی قضائے معلق کی طرح تبدیلی کا احتمال رکھتی ہے۔ پس اس تقریر سے معلوم ہوا کہ حضرت پیر دستگیر علیہ الرحمہ کا ارشاد(میں قضائے مبرم کو رد کردیتا ہوں، مترجم) اس قسم اخیر(یعنی مشابہ بہ مبرم) کے بارے میں ہے نہ کہ مبرم حقیقی کے بارے میں، کیونکہ اس(مبرم حقیقی) میں تصرف وتبدیلی عقلی و شرعی لحاظ سے محال ہے، حق بات یہ ہے کہ بہت کم لوگ ہیں کہ جو اس قضاء(مشابہ بہ مبرم) کی خبر رکھتے ہیں اور کیونکر رکھ سکتے ہیں جبکہ اس میں تصرف نہیں ہوپاتا ، اور میرے دوست کو جو آزمائش پیش آئی تھی اسی کے سبب سے میں نے اس قسم کو دریافت کیا اور حضرت حق سبحانہ وتعالی نے اس فقیر کی دعا سے اس کی آزمائش کو دور کردیا۔ 

1۔۔۔۔۔۔ ''کنز العمال''، کتاب الأذکار، ج۱، الجزء الثاني، ص۲۸، الحدیث:۳۱۱۷. بألفاظ متقاربۃ.

     قال الإمام أحمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن في ''المعتمد المستند'' حاشیہ نمبر ۷۷ ، ص۵۴ ۔۵۵: (أقول: أخرج أبو الشیخ في کتاب الثواب عن أنس بن مالک رضي اللہ تعالی عنہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم: ((أکثر من الدعائ، فإنّ الدعاء یردّ القضاء المبرم))، وأخرج الدیلمي في ''مسند الفردوس'' عن أبي موسی الأشعري رضي اللہ تعالی عنہ وابن عساکر عن نمیر بن أوس الأشعري مرسلًا کِلاھما عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم قال: ((الدعاء جند من أجناد اللہ مجند یرد القضاء بعد أن یبرم)). وتحقیق المقام علی ما ألہمني الملک العلام أنّ الأحکام الإلہیۃ التشریعیۃ کما تأتي علی وجہین: (۱) مطلق عن التقیید بوقت کعامتہا و(۲) مقید بہ کقولہ تعالی: (فَإِنْ شَہِدُوْا فَأَمْسِکُوْہُنَّ فِی الْبُیُوتِ حَتّٰی یَتَوَفّٰہُنَّ الْمَوْتُ أَوْ یَجْعَلَ اللہُ لَہُنَّ سَبِیلْاً)، پ۴، النساء: ۱۵، فلما نزل حدّ الزنا قال صلّی اللہ تعالی علیہ وسلم: ((خذوا عنّي قد جعل اللہ لہنّ سبیلا).الحدیث. 

رواہ ''مسلم'' کتاب الحدود، باب حد الزنا، الحدیث: ۱۶۹۰، ص۹۲۸ وغیرہ عن عبادۃ رضي اللہ تعالی عنہ.
Flag Counter