Brailvi Books

بہارِشریعت حصّہ اول (1)
15 - 278
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

تصرّف بکنم، وازین سخن تعجّب بسیار میکردند واستبعاد میفرمودند، واین نقل مدتہا در خزینہ ذہنِ این فقیر بود تاآنکہ حضرتِ حق سبحانہ وتعالی باین دولتِ عظمے مشرف ساخت، روزے در صد ودفع بلیّہ بودم کہ بہ بعضی از دوستان نامزد شدہ بود دوران وقت التجا وتضرّع ونیاز وخشوعِ تمام داشتم ظاہر شد کہ در لوح محفوظ قضاء این امر معلق بامرے نیست ومشروط بشرطے ، نہ یک گونہ یاس وناامیدی دست دادوسخنِ حضرت سید محی الدین قدّس سرّہ بیاد آمد مرّۃً ، ثانیۃ باز ملتجی ومتضرع گشت دراہِ عجز ونیاز پیش گرفتہ متوجّہ شد بمحض فضل وکرم ظاہر ساختند کہ قضاءِ معلق بردوگونہ است، قضائے است کہ تعلیق او را در لوح محفوظ ظاہر ساختہ اندو ملائکہ را بر ان اطلاع دادہ، وقضائیکہ تعلیقِ اونزدِ خدا ست جلّ شانُہ، وبس ودر لوح محفوظ صورتِ قضاءِ مبرم دار،(کہ بظاہر در لوح محفوظ مشروط بامرے نساختہ اند بلکہ مطلق گذاشتہ لیکن نفس الامر مقید بقید ومشروط بشرط است۱۲ حاشیہ) واین قسم اخیر از قضاء معلّق نیز احتمالِ تبدیل دارد، در رنگ قسم اول از انجا معلوم شد کہ سخنِ سید مصروف با ینقسم اخیر است کہ صورت قضاء مبرم وارد نہ بقضاء کہ بحقیقت مبرم است کہ تصرف وتبدیل در ان محالست عقلاً وشرعاً کما لا یخفی، والحق کہ کم کسے رابر حقیقتِ آ ن قضاء اطلاع است فکیف کہ در انجا تصرّف نماید، وبلیّہ کہ متوجہِ آن دوست شدہ بود دران قسم اخیر یافت ومعلوم شد کہ حضرت حق سبحانہ وتعالی دفع آن بلیّہ فرمود). ''مکتوبات إمام رباني''، فارسی، مکتوب نمبر ۲۱۷، ج۱، ص۱۲۳۔۱۲۴.

    یعنی: جان لے اللہ تجھے ہدایت عطا فرمائے اے پیارے بھائی! قضاء کی دو قسمیں ہیں : قضاء ِمعلق اور قضاء ِمبرم۔ قضاء ِمعلق یہ ہے کہ اس میں تبدیلی کا احتمال ہوتاہے جبکہ قضاء ِمبرم وہ ہے جس میں تبدیلی کی گنجاءش نہیں ، جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے: ترجمہ کنزالایمان:میرے یہاں بات بدلتی نہیں ۔ یہ قضائے مبرم کی مثال ہے جبکہ قضائے معلق کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے :ترجمہ کنز الایمان: اللہ جو چاہے مٹاتا اور ثابت کرتا ہے اور اصل لکھا ہوا اسی کے پاس ہے۔ میرے پیر بزرگوار قدّس سرہ فرماتے تھے کہ حضرت پیر سید محی الدین جیلانی قدس سرہ الربانی نے اپنے بعض رسالوں میں تحریر کیا کہ قضائے مبرم میں کسی کو تبدیلی کرنے کا اختیار نہیں مگر مجھے اختیار دیا گیا ہے کہ اگر چاہوں تو اس میں تصرف کروں۔ ان کی اس بات سے میرے پیر بزرگوار بہت تعجب کرتے تھے اور اس کو بعید جانتے تھے اور یہ بات اس فقیر (شیخ احمد فاروقی سرہندی) کے ذہن میں کافی مدت تک رہی یہاں تک کہ حق تعالی نے مجھے بھی اس دولت عظمیٰ سے مشرف فرمادیا(یعنی شیخ احمد فاروقی سرہندی علیہ الرحمہ کی دعا سے بھی قضائے مبرم میں تبدیلی ہوگئی ،مترجم )، چنانچہ ایک دن میرے کسی دوست کے ساتھ حاکم وقت کی طرف سے کوئی مسئلہ پیش آگیا تو میں نے اس کے دفع کے لئے گریہ وزاری کی اور خوب خشوع وخضوع کیا تو جانب ِحق تعالی کی طرف سے بطورِ کشف والہام مجھے معلوم ہوا کہ یہ معاملہ لوح ِ محفوظ میں معلق نہیں کہ
Flag Counter