''ہم سے جھگڑنے لگا قومِ لوط کے بارے میں۔'' یہ قرآنِ عظیم نے اُن بے دینوں کا رَد فرمایا جو محبوبانِ خدا کی بارگاہِ عزت میں کوئی عزت و وجاہت نہیں مانتے اور کہتے ہیں کہ اس کے حضور کوئی دَم نہیں مار سکتا، حالانکہ اُن کا رب عزوجل اُن کی وجاہت اپنی بارگاہ میں ظاہر فرمانے کو خود ان لفظوں سے ذکر فرماتا ہے کہ : ''ہم سے جھگڑنے لگا قومِ لوط کے بارے میں''، حدیث میں ہے: شب ِمعراج حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ایک آواز سنی کہ کوئی شخص اﷲ عزوجل کے ساتھ بہت تیزی اور بلند آواز سے گفتگو کر رہا ہے، حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے جبریل امین علیہ الصلاۃ والسلام سے دریافت فرمایا :''کہ یہ کون ہیں؟ '' عرض کی موسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام، فرمایا: ''کیا اپنے رب پر تیز ہو کر گفتگو کرتے ہیں؟'' عرض کی: اُن کا رب جانتا ہے کہ اُن کے مزاج میں تیزی ہے۔ (2) جب آیہ کریمہ
(وَ لَسَوْفَ یُعْطِیۡکَ رَبُّکَ فَتَرْضٰی ) ـ3ـ
نازل ہوئی کہ ''بیشک عنقریب تمھیں تمھارا رب اتنا عطا فرمائے گا کہ تم راضی ہو جاؤ گے۔'' حضور سیّدالمحبوبین صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا:
((إِذاً لاَّ أَرْضٰی وَوَاحِدٌ مِّنْ أُمَّتِيْ فِي النَّارِ)).(4)
''ایسا ہے تو میں راضی نہ ہوں گا، اگر میرا ایک اُمتی بھی آگ میں ہو۔''
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ وکثیراً ما یقع الاتفاق بین السّریاني والعربي أو یقاربہ في اللفظ؛ ألا تری أنّ إبراہیم تفسیرہ: أب راحم؛ لرحمتہ بالأطفال، ولذلک جعل ہو وسارۃ زوجتہ کافلین لأطفال المؤمنین الذین یموتون صغاراً إلی یوم القیامۃ). و''تفسیر روح البیان''،ج۱، ص۲۲۱. 1۔۔۔۔۔۔ پ۱۲، ھود: ۷۴. 2۔۔۔۔۔۔ عن عبد اللہ بن مسعود عن أبیہ عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم قال: ((سمعت کلاماً في السمائ، فقلت: یا جبریل! من ھذا؟)) قال: ھذا موسی، قلت: ((ومن یناجي؟)) قال: ربہ تعالی، قلت: ((ویرفع صوتہ علی ربہ؟)) قال: إنّ اللہ عزوجل قد عرف لہ حدَّتَہ. ''حلیۃ الأولیائ''، ج۱۰، ص۴۱۷، الحدیث: ۱۵۷۰۸. ''کنز العمال''، کتاب الفضائل، فضائل سائر الأنبیائ، رقم: ۳۲۳۸۵، ج۶، الجزء ۱۱، ص۲۳۲. ''فتح الباری''، کتاب مناقب الأنصار، باب المعراج، ج۷، ص۱۸۰، تحت الحدیث: ۳۸۸۷. 3۔۔۔۔۔۔ پ۳۰، الضحٰی: ۵. 4۔۔۔۔۔۔ ''التفسیر الکبیر''، پ۳۰، الضحی: تحت الآیۃ: ۵، ج۱۱، ص۱۹۴.