سَمُنْدَرِ سَخَاوَت ٹھاٹھیں مارتا ہے تو کبھی بُخل (یعنی کنجوسی ) کا طُوفان اپنی ہلاکت خیزیاں دکھاتا ہے ،کبھی توعاجزی کا ایسا پیکر کہ کتّے کو بھی حَقِیر نہ جانے اور کبھی ایسا مُتَکَبِّر کہ بڑوں بڑوں کوخاطِر میں نہ لائے، کبھی تو ایسا مُخْلِص کہ اپنا نیک عمل ظاہِر ہونے پر پریشان ہوجائے اور کبھی ایسی حالت کہ تعریف نہ ہونے پر مَلَال محسوس کرے ،کبھی ایسا صابِر کہ بڑی سے بڑی مُصیبت پر اُف تک نہ کرے اور کبھی ایسی بے صبری کہ ذرا سی تکلیف پرواویلا مَچادے،کبھی تو اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کا ایسا خوف کہ گُناہ کرنے کے تَصَوُّر ہی سے گھبرائے اور کبھی ایسی غَفْلَت کہ بڑے بڑے گُناہ کرنے کے بعد بھی آثارِ نَدَامَت دِکھائی نہ دیں ، کبھی تو عشقِ رسول (صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم) کا ایسا جذبہ کہ زبانِ حال سے پکار اٹھے :
میرے تو آپ ہی سب کچھ ہیں رحمتِ عالَم
میں جی رہا ہوں زمانے میں آپ ہی کے لئے
اور کبھی دُنیا کی محبت کا ایسا غَلَبہ کہ اِسی کو اپنا سب کچھ سمجھ بیٹھے، کبھی تو مسلمانوں کی خیرخواہی کا ایسا جذبہ کہ خود نُقصان اٹھا کر بھی دوسروں کا بھلا کرے اور کبھی ایسا خُود غَرَض کہ اپنے فائدے کے لئے مسلمان بھائی کو نُقصان پہنچانے سے بھی دریغ نہ کرے ،کبھی تو ایسا اِسْتِغناء (یعنی بے نیازی)کہ جائے عزت پرباوُجُودِ اِصرار نہ بیٹھے