Brailvi Books

بدگمانی
6 - 64
روح المعانی میں اِسی آیت کے تحت لکھتے ہيں کہ '' یہ آیت اس بات پر دلیل ہے کہ آدمی کے دِل کے اَفعا ل پر بھی اس کی پکڑ ہوگی مثلاً کسی گُناہ کا پُختہ اِرادہ کر لینا ..یا..دِل کا مختلف بیماریوں مثلاًکینہ ، حَسَد اور خُود پسندی وغیرہ میں مُبتِلا ہوجانا،ہاں عُلَماء نے اس بات کی صَرَاحَت فرمائی کہ دِل میں کسی گناہ کے بارے میں محض سوچنے پر پکڑ نہ ہوگی جبکہ اِس کے کرنے کا پختہ اِرادہ نہ رکھتا ہو ۔''
(روح المعانی،پ۱۵،الاسراء،تحت۳۶،ج۱۵،ص۹۷)
دِل کو قَلْب کیوں کہتے ہیں؟
    دِل کو عَرَبی زبان میں قَلْبٌ (یعنی بدلنے والا)کہتے ہیں اور اسے قلب کہنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ مختلف اوقات میں مَحْمُود ومَذْمُوم(یعنی پسندیدہ وناپسندیدہ) دونوں قسم کی کیفیات سے دوچار ہوتا ہے۔
(مرقاۃ المفاتیح ،کتاب الایمان ،ج۱،ص۳۰۴)
 اِس حقیقت کو فرمانِ نبوی علیہ الصلوٰۃ والسلام میں یوں بیان کیا گیا ہے : ''دِل کی مثال اس پَر کی سی ہے جو میدانی زمین میں ہو جسے ہوائیں ظاہِر باطِن الٹیں پلٹیں ۔''
(المسند للامام احمد بن حنبل ،حدیث ابی موسیٰ الاشعری،الحدیث۱۹۷۷۸،ج۷،ص۱۷۸)
    میٹھے میٹھے اِسلامی بھائیو!واقِعی اگر ہم اپنے دِل پر غور کریں تو یہ نتیجہ سامنے آئے گا کہ کبھی اس پر رَحَم غالِب ہوتا ہے اور کبھی سختی اسے جکڑ لیتی ہے ، کبھی
Flag Counter