میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! حیاء کی نَشوونُما میں ماحول اور تربیَّت کا بَہُت عمل دَخْل ہے۔ حیادار ماحول مُیَسَّر آنے کی صورت میں حیاء کو خوب نِکھار ملتا ہے جبکہ بے حیاء لوگوں کی صحبت قلب و نگاہ کی پاکیزگی سَلْب کر کے بے شرم (بے۔شرْ۔مْ) کر دیتی ہے اور بندہ بے شمار غیر اَخلاقی اور ناجائز کاموں میں مُبتَلا ہو جاتا ہے اس لئے کہ حیاء ہی تو تھی جو برائیوں اور گناھوں سے روکتی تھی۔ جب حیاء ہی نہ رہی تو اب بُرائی سے کون روکے؟ بَہُت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو بدنامی کے خوف سے شرما کر بُرائیاں نہیں کرتے مگر جنہیں نیک نامی و بدنامی کی پرواہ نہیں ہوتی ایسے بے حیا لوگ ہر گناہ کر گزرتے، اَخلاقیات کی حُدُود توڑ کر بداَخلاقی کے میدان میں اُتر آتے اور انسانيت سے گِرے ہوئے کام کرنے