(رضی اللہ تعالیٰ عنہ) اوریا عطار(دامَتْ بَرَکاتُہُمُ العالیہ) لکھا ہوا تھا۔
جب میں غسل سے فارِغ ہوا تو ان میں سے ایک نے میری کمر پر تھپکی دی اور کہا، بعدِ نماز ظہر نمازِ جنازہ میں شرکت کیلئے ممکن ہو تو ضَرور آئہے گا۔واپَسی میں بھی ان کے عَلاوہ گھر میں اور باہَراور کوئی دوسرانظر نہ آیاپھر جو صاحب مجھے لائے تھے انہوں نے گاڑی پر بٹھایا اور واپس روانہ ہوئے مگر کچھ آگے جانے کے بعد کہنے لگے:''یہاں سے آپ خود چلے جائیں۔''میں نے اطمینان کا سانس لیا کیونکہ مجھے اب گھبراہٹ سی ہونے لگی تھی۔میں تشویش کے عالم میں واپس لوٹ آیا ۔بعد میں جب میں نے اس عَلاقے کی مسجِد کے ذمّہ داران سے معلوم کیا تو ان سب نے کسی بھی گھر میں میِّت ہونے سے لاعلمی کا اظہار کیا۔میں ذمّہ داران کے ہمراہ اس گھر کی تلاش میں نکلاتونہ گھر ڈھونڈ سکا نہ ہی ا ن'' پُراَسرار اَفراد '' کا کوئی سُراغ مِلا۔
بعد میں اس علاقے کے کئی لوگوں سے معلومات کی گئی، عَلاقے کی مسجد کے نمازیوں تک سے پوچھا گیامگر حیرت انگیزبات یہ تھی کہ وہاں اس تاریخ اور دن میں نہ کسی کے اِنتِقال کی اطّلاع تھی اورنہ ہی اِس مسجد میں کوئی جنازہ پہنچا تھا۔جب کہ خادِم کے کہنے کے مطابق غسل مسجد کے برابر والی گلی میں ہی دیا گیا تھا۔ ان خادم