مجھے سمجھانا شروع کیا،ان کی کچھ دیر کی انفرادی کوشش کے نتیجے میں بالآخر میں نے ہامی بھر لی اور اپنے شہر کی جامع مسجد قُبَاء میں ہونے والے اجتماعی اعتکاف میں شریک ہو گیا۔عاشقانِ رسول کی صحبت میں رہ کر مجھے پتہ چلا کہ زندگی کا حقیقی مقصد کیا ہے ! ہر طرف سنّتوں کی بہاریں ،کبھی’’ تُوبُوا اِلَی اللہ‘‘ تو کبھی ’’ صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیب!‘‘کی میٹھی میٹھی صدائیں دیر تک کانوں میں رس گھولتی رہتیں۔میں اجتماعی اعتکاف میں ہونے والے تربیتی حلقوں میں پابندی سے شرکت کرتا اور علمِ دین کے انمول موتیوں سے اپنے خالی دامن کو بھرلیتا۔میں نے جب پہلی بار امیرِ اہلسنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ العَالِیَہ کا بذریعہ وی سی ڈی دیدار کیا تو میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ یہ تو وہی نورانی چہرے والے بزرگ ہیں کہ جو میرے خواب میں تشریف لائے تھے۔میں تو ان کے رسائل پڑھ کر پہلے ہی ان کا گرویدہ ہو چکا تھا بس اب تو ان کا ہی ہو کر رہ گیا۔اعتکاف میں ہونے والے سنّتوں بھرے بیانات کی بَرَکت سے میں نے تمام گناہوں سے پکی سچی توبہ کی اور سلسلہ قادریہ عطاریہ میں بیعت ہو کر حضور غوثِ اعظم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کے مریدوں میں شامل ہو گیا۔اعتکاف کے بعداَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَزَّوَجَلَّ کم وبیش چار سال سے پابندی کے ساتھ ہر ہفتے تقریباً 10,8 اسلامی بھائیوں کے ساتھ ہفتہ وار اجتماع میں شرکت،ہر ماہ پابندی کے ساتھ تین دن کے مدنی قافلے میں سفراور چند دنوں کے علاوہ تقریباً روزانہ چوک