ئیں گے۔‘‘مجھے اس بات سے حیرت کے ساتھ ساتھ خوشی بھی ہوئی کہ اس پُرفتن دور میں بھی شرم و حیا کا وصف رکھنے والے خوش نصیب موجود ہیں۔میں نے چہرے پر کپڑا ڈال لیا تو اسلامی بہن نے انہیں اندر آنے کو کہا :جونہی دروازہ کھلا،ان کے شوہر حیاسے نظریں جھکائے اندر داخل ہوئے ،انہوں نے سفید لباس پہن رکھا تھا اورسر پر سبزسبز عمامہ شریف سجا ہوا تھا ۔ دعوتِ اسلامی کے مشکبار مدنی ماحول سے وابستہ میاں بیوی کی شرعی حدود کی محافظت دیکھ کر مجھے اپنی بے باکی اور گناہوں بھری زندگی پر افسوس ہونے لگا ، بے ساختہ میری آنکھیں پُر نم ہوگئیں او ر میری زبان پر یہ الفاظ جاری ہوگئے : ’’یہ بھی تو مسلمان ہیں وہ مرد ہو کر بھی اس قدر شرم و حیا والا ہے اور میں ہوں کہ بے پردگی کے عظیم گناہ کا ارتکاب کرتی ہی چلی جا رہی ہوں۔‘‘ اس اسلامی بہن کے شوہر جتنی دیر فون کرتے رہے،انہوں نے ایک بار بھی میری طرف نظراٹھا کر نہ دیکھا ۔ان کے جانے کے بعدمیں ایک اضطرابی کیفیت میں مبتلا ہوگئی۔آج پہلی بار شرم و حیااور اسلامی تعلیمات کی عملی تصویر دیکھ کر شمعِ فکرِ آخرت میرے دل میں فروزاں ہوگئی، جس کی کرنوں سے میرے تاریک دل کی دنیا روشن ومنور ہونے لگی، مجھے شدت سے اپنے گناہوں پرندامت ہونے لگی، خوفِ خداکا اس قدر غلبہ ہوا کہ اس اسلامی بہن کے جاتے ہی میں نے فوراًنیٹ کیفے بند کردیا اور اپنے کمرے میں آکر زور زورسے رونا شروع کردیا ،میں اپنی