فرماتے ہیں کہ مجھے خلیفہ مہدی کے زمانے میں دربارِ شاہی میں طلب کیا گیا تو میں بھاگ کر یمن آگیا اور کبھی کسی محلے میں جاتا تو کبھی کسی محلے میں اور ان کی مسجدوں میں پناہ لیتا ، ایک مرتبہ کسی محلے میں چوری ہوگئی تومحلے والوں نے مجھ پر الزام لگا دیا اور مجھے معن بن زائدہ کے پاس لے گئے ، اسے میری گرفتاری کے احکامات مل چکے تھے ، کسی نے اس سے کہا کہ اس شخص نے ہمارے ہاں چوری کی ہے ۔ معن بن زائدہ نے کہا: تم نے ان کا سامان کیوں چرایا ہے ؟میں نے کہا: میں نے کچھ نہیں چُرایا۔ پھر مَعْن بن زائدہ نے اُن لوگوں سے کہا: تم لوگ ہٹ جاؤ اورمجھے ان سے کچھ پوچھنے دو۔ پھر اس نے میرے قریب آکر پوچھا: تمہارا نا م کیا ہے ؟ میں نے کہا: عبداللہ بن عبد الرحمٰن۔ اس نے کہا: اے عبداللہ بن عبد الرحمٰن!میں تمہیں اللہ عَزَّ وَجَلَّکی قسم دیتا ہوں کہ مجھے اپنا اصل نسب بیان کرو۔ میں نے کہا: میں سفیان بن سعید بن مسروق ہوں۔ اس نے کہا: ثَوری؟ میں نے کہا: ہاں، ثَوری۔ اس نے کہا: کیا تم خلیفہ کو مطلوب ہو؟ میں نے کہا: ہاں۔ اس نے کچھ دیر اپنا سرجھکائے رکھا پھر کہا: جو چاہوکرو اور جہاں جانا چاہو چلے جاؤ۔ خدا کی قسم! اگرتم میرے پاؤں کے نیچے بھی چھپے ہوگے تو میں پاؤں نہیں اٹھاؤں گا۔
(9308)…حضرت سیِّدُنایحییٰ بن یمان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْمَنَّان نے بیان کیا کہ میں نے کان لگا کر چپکے سے حضرت سیِّدُنا سفیان ثَوری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی کو یہ کہتے سنا: اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ!میرے عیبوں کو ہمیشہ چھپائے رکھ، اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ!میرے عیبوں کو ہمیشہ چھپائے رکھ۔
یادِ آخرت کا انوکھا طریقہ:
(9309)…حضرت سیِّدُنا عبداللہرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا بیان ہے کہ ایک شخص حضرت سیِّدُنا سفیان ثَوریعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِیکا پیچھاکرتارہتا تھا، وہ ہمیشہ دیکھتا کہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اپنے گریبان سے ایک رقعہ نکال کراُسے دیکھتے ہیں ، پس وہ جاننا چاہتا تھاکہ اس رقعے میں کیاہے ، ایک مرتبہ وہ رُقعہ اس کے ہاتھ لگ گیا، جب دیکھاتواس میں یہ لکھا تھا: ” اے سفیان! اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے حضور کھڑے ہونے کو یاد رکھو۔ “
(9310)…حضرت سیِّدُنا سفیان ثَوریعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی فرماتے ہیں: میں نے کبھی اپنے نفس کے علاج سے زیادہ دشوار علاج کسی شے کا نہیں کیا، کبھی وہ میرے خلاف ہوتا ہے اورکبھی موافق۔