(9366)…حضرت سیِّدُناسفیان ثَوریعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِینے فرمایا: جب سورج مغرب سے طلوع ہوگاتو ملائکہ اپنے صحیفے لپیٹ لیں گے اورقلم رکھ دیں گے ۔
شیطان کی کمر توڑنے والا عمل:
(9367)…حضرت سیِّدُناسفیان ثَوریعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِینے فرمایا: شیطان کی کمرتوڑنے کے لئے لَااِلٰہَ اِلَّااللہ کہنے سے زیادہ بڑی کوئی چیزنہیں اورثواب میں اضافہ کرنے والے کلاموں میںاَلْحَمْدُ لِلّٰہجیساکوئی کلام نہیں۔
(9368)…حضرت سیِّدُنا عبد الرزاق عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الرَّزَّاق نے مَکۂ مکرمہ میں حضرت سیِّدُنا سفیان ثَوری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی سے سوال کیا کہ دنیا میں زہد کیا ہے ؟فرمایا: مرتبے کا گھٹ جانا۔
گمان کی دو قسمیں:
(9369)…حضرت سیِّدُناسفیان ثَوریعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِینے فرمایا: گمان دو طرح کاہے ، ایک وہ جس میں گناہ ہے اوردوسراوہ جس میں گناہ نہیں، گناہ والاتویہ ہے کہ زبان پرآجائے اورجو زبان پرنہ آئے اس میں گناہ نہیں۔
(9370)…حضرت سیِّدُنا یوسف بن اَسْباطرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہفرماتے ہیں کہ میں حضرت سیِّدُناسفیان ثَوری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِیکے پاس تھا کہ ان کے پاس امام اعظم ابو حنیفہرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے انتقال کی خبر آئی، تو آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے ” اَلْحَمْدُ لِلّٰہ “ کہا اور فرمایا: وہ اسلام کی کڑیوں کو توڑ رہا تھا۔ (1)
________________________________
1 - یہ روایت درست نہیں اس روایت میں دو راویوں پرکلام ہے ایک راوی ” ابوصالح محبوب بن موسٰی فراء “ ہیں جن کے بارے میں امام ابو داود رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں: یہ حدیث میں ثقہ ہیں لیکن کتاب دیکھے بغیر جو واقعات بیان کریں ان کی طرف التفات نہ کیا جائے ۔ ( تهذيب التهذيب، ۸ / ۶۲) دوسرے راوی ” ہاشم بن مرثد “ ہیں جن کے بارے میں امام الجرح والتعدیل ابن حبان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہفرماتے ہیں: ” لَیْسَ بِشَیْءٍ یعنی ان کی کوئی حیثیت نہیں۔ “ (میزان الاعتدال، ۴ / ۲۶۶) حق تو یہ ہے کہ حضرت سیِّدُنا سفیان ثوری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی امام اعظم رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے مداح تھے اور ان کے علمی مقام و مرتبہ کے قائل تھے چنانچہ امام قاضی ابوعبد اللہحسین بن علی صمیری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْوَ لِی متوفی۴۳۶ ھ اپنی کتاب ” اَخْبَارُاَبِیْ حَنَیْفَہ وَ اَصْحَابِہٖ “ میں فرماتے ہیں: حضرت سیِّدُناابوبکر بن عیاش رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہسے روایت ہے کہ حضرت سیِّدُنا امام سفیان ثوری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی کے بھائی عُمَر بن سعید کا وصال ہوا تو ہم تعزیت کے لئے امام سفیان ثوری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِیکے پاس آئے ۔ کیا دیکھتے ہیں کہ ان کی مجلس تعزیت کرنے والوں سے بھری ہوئی تھی ۔ اسی وقت حضرت امام ابوحنیفہرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہاپنی ایک جماعت کے ہمراہ تعزیت کے لئے تشریف لائے ۔ جس وقت حضرت سفیان ثوریعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِینے انہیں دیکھا تومجلس سے اٹھ کھڑے ہوئے ، ان سے معانقہ کیا ، اپنی جگہ بٹھایا اور خود ان کے سامنے بیٹھ گئے ۔ ان کے چلے جانے کے بعد جب میں نے ان کے اس فعل پر اعتراض کیا تو فرمایا: تم کیوں اعتراض کرتے ہو اس شخص (یعنی امام ابوحنیفہ)کا ایک علمی مقام ہے اگر میں ان کے علم کے لئے کھڑا نہ ہوتا تو ان کی عمر کا خیال کرکے کھڑا ہوجاتااور اگر عمر کا خیال نہ کرتا تو ان کی فقہ کے لئے کھڑا ہوجاتا اور اگر فقہ کا خیال نہ کرتا تو ان کے تقوٰی وپرہیزگاری کے لئے کھڑا ہوجاتا۔ حضرت ابوبکر بن عیاش رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہفرماتے ہیں : میں ان کے اس جواب سے لاجواب ہوکر رہ گیا۔ (اخبار ابی حنیفة واصحابه، ص۸۰)امام ثوریعَلَیْہِ الرَّحْمَہکے پاس ایک شخص آیا تو آپ نے اس سے پوچھا: کہاں سے آئے ہو؟کہا: امام ابو حنیفہعَلَیْہِ الرَّحْمَہ کے پاس سے ۔ فرمایا: تم روئے زمین کے سب سے بڑے فقیہ کے پاس سے آئے ہو۔ امام ثوری عَلَیْہِ الرَّحْمَہ کے سرہانے امام ابو حنیفہرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی کتاب الرہن دیکھی گئی توکسی نے کہا: کیا آپ ان کی کتابیں دیکھتے ہیں؟ فرمایا: کاش میرے پاس ان کی سب کتابیں ہوتیں جنہیں میں دیکھا کرتا۔ امام ابو یوسف رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہفرماتے ہیں: مجھ سے زیادہ امام صاحب کے متبع سفیان ثوری ہیں۔ ایک دن امام سفیان ثوریرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے حضرت ابنِ مبارک سے امام اعظم ابو حنیفہرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمَا کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا: وہ ایسے علم پر سوار ہیں جو نیزے کی نوک سے زیادہ تیز ہے اور بخدا!وہ علم کو بہت حاصل کرنے والے ، محارم سے دور رہنے والے اور اپنے شہر والوں کا بہت اتباع کرنے والے ہیں سوائے صحیح حدیث کے دوسری قسم کی حدیث لینا حلال نہیں جانتے ، حدیث کے ناسخ ومنسوخ کو خوب پہچانتے اورثقات سے احادیث لیتے ہیں۔ (الخیرات الحسان، الفصل الثالث عشر، ص۴۵، ملتقطا)