قَسَم کی وجہ سے تجھے سچّا سمجھتا ہوں کہ مومِن بندہ اللہ (عَزَّوَجَل) کی جھوٹی قسم نہیں کھاسکتا، (کیونکہ)اُس کے دل میں اللہ کے نام کی تعظیم ہوتی ہے، اپنے مُتَعَلِّق غَلَط فَہمی کا خیال کر لیتا ہوں کہ میری آنکھوں نے دیکھنے میں غَلَطی کی ۔ (مِراٰۃ ج ۶ ص ۶۲۳ ) اور امام نَوَوی رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ اس حدیث کے تَحْت فرماتے ہیں :’’ کلام کا ظاہر یہ ہے کہ میں نے اللہ تَعَالٰی کی قسم کھانے والے کی تصدیق کی اور اُس کا چوری کرنا جو میرے سامنے ظاہِر ہوا ، میں نے اِس کو جُھٹلایا ۔ (وضاحت یہ ہے کہ)شاید اُس شخص نے وہ چیز لی تھی جس میں اس کا حق تھا یا اِس نے غَصْب کا قَصْد نہیں کیا تھا یا حضرتِ عیسیٰعَلَيْهِالصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کو ظاہِری طور پر یوں محسوس ہوا کہ اُس شخص نے ہاتھ بڑھا کر کوئی چیز لی (یعنی چُرائی) ہے لیکن جب اس نے حَلَف لیا(یعنی قسم کھائی) تو آپ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلامنے اپنا گمان ساقِط کردیا اور اس گمان سے رُجوع کر لیا ۔‘‘(شرح مسلم للنووی ج۸ص۱۲۲) اللہ عَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری مغفِرت ہو۔
اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم
وَاللہُ اعلَمُ ورسولُہٗ اَعلَم عَزَّوَجَلَّ وَصلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم۔
ہے مومِن کی عزّت بڑی چیز یارو!
بُرائی سے اس کو نہ ہرگز پکارو
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد