چورڈاکو کی گرفتاری کی خبریں دینا
سُوال : جو چور یا ڈاکو پکڑے گئے اخبار میں ان کی خبر لگانے کے متعلِّق آپ کیا کہتے ہیں؟
جواب :اوّل تو یہ دیکھ لیا جائے کہ جو پکڑے گئے وہ واقِعی چور یا ڈاکو ہیں بھی یا نہیں! بہارِ شریعت جلد2 صَفْحَہ 415پرمسئلہ نمبر2ہے:’’چوری کے ثُبُوت‘‘ کے دو طریقے ہیں: ایک یہ کہ چور خود اقرار کرے اور اِس میں چند بار کی حاجت نہیں صِرْف ایک بار(کا اقرار) کافی ہے دوسرا یہ کہ دومَرد گواہی دیں اور اگر ایک مرد اور دو عورَتوں نے گواہی دی توقَطْع(یعنی ہاتھ کاٹنے کی سزا) نہیں مگر مال کا تاوان دلایا جائے اور گواہوں نے یہ گواہی دی کہ (ہم نے چوری کرتے نہیں دیکھا فَقَط) ہمارے سامنے(چوری کا) اقرار کیا ہے تو یہ گواہی قابلِ اِعتِبار نہیں۔ گواہ کا آزاد ہوناشَرْط نہیں(یعنی غلام کی گواہی بھی یہاں مقبول ہے ) ۔ (دُرِّمُختارو رَدُّالْمُحتار ج ۶ ص ۱۳۸) دُوُم یہ کہ پکڑے جانے والوں کی خبر لگانے میں مَصلَحتِ شَرْعی دیکھی جائے ۔ عُمُوماً خبریں لگانے میں کوئی صحیح مقصد پیشِ نظر نہیںہوتا نیزشَرْعی ثُبُوت کی بھی پرواہ نہیں کی جاتی بس یوں ہی ’’ خبر برائے خبر‘‘چھاپنے کی ترکیب کر دی جاتی ہے، جبھی تو بارہا ایسا ہوتا ہے کہ جس کو بطورِ ’’مجرِم‘‘ اخباروں میںخوب اُچھالا گیا بعد میں وہی ’’باعزّت بَری‘‘ بھی ہو گیا! تو جس کا چور، ڈاکو، خائن یا ٹھگ (Cheater) وغیرہ ہوناشَرْعاً ثابِت نہ ہو اُس کو ’’مجرِم‘‘ قراردینا ہی گناہ ہےچہ جائیکہ اُسے اخبار میں بطورِ مجرِم مُشتَہَرکرکے لاکھوں لوگوں میں ذلیل وخوار کر دینا! یقیناً