فاش کراتے ہو، حق یہ ہے کہ اللہ(عزوجل)نے حضور صلی اللہ تعالیٰ عليہ وآلہٖ وسلم کو قیامت کا علم بھی دیا (تفسیرصاوی وغیرہ)اسی لیے حضرت جبرائیل نے حضور صلی اللہ تعالیٰ عليہ وآلہٖ وسلم سے یہ سوال کیا۔
(۱۷)یعنی اگر قیامت کی خبر دینا خلافِ مصلحت ہے توا س کی خصوصی علامات ہی بتادیجئے ۔ اس سوال سے معلوم ہوتاہے کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ عليہ وآلہٖ وسلم کو قیامت کا علم ہے علامتیں واقف ہی سے پوچھی جاتی ہیں۔
(۱۸)یعنی اولاد نافرمان ہوگی،بیٹا ماں سے ایسا سلوک کریگا جیسا کوئی لونڈی سے توگویا ماں اپنے مالک کو جنے گی ۔
(۱۹)یعنی دنیا میں ایسا انقلاب آئے گا کہ ذلیل لوگ عزت والے بن جائیں گے اور عزیز لوگ ذلیل ہوجائیں گے ۔ جیسا کہ آ ج دیکھا جارہا ہے ۔ بادشاہ سکندر ذوالقرنین نے حکم دیا تھا کہ کوئی پیشہ ور اپنا موروثی پیشہ نہیں چھوڑ سکتا تاکہ عالم کا نظام نہ بگڑ جائے ۔ معلوم ہوا کہ کمینوں کا اپنا پیشہ چھوڑ کر اونچا بن جانا علامتِ قیامت ہے۔ اور اس سے نظامِ عالم کی تباہی ہے۔
(۲۰)یہ صحابہ علیہم الرضوان کا ادب ہے کہ علم اللہ(عزوجل )اور رسول (صلی اللہ تعالیٰ عليہ وآلہٖ وسلم) کے سپردکرتے ہیں اس سے دو مسئلے معلوم ہوئے ایک یہ کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ عليہ وآلہٖ وسلم کا ذکر اللہ(عزوجل)کے ساتھ ملاکر کرناشرک نہیں ،بلکہ سنت صحابہ علیہم الرضوان ہے یہ کہہ سکتے ہیں کہ اللہ اور رسول جانیں،اللہ اور رسول فضل کریں ،اللہ اوررسول رحم فرمادیں ، اللہ اور رسول بھلا کرے دوسرے یہ کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ عليہ وآلہٖ وسلم کو خبر تھی کہ یہ سائل جبریل تھے ورنہ آپ (صلی اللہ تعالیٰ عليہ وآلہٖ وسلم)فرمادیتے کہ مجھے بھی خبر نہیں یہ کون