(۱۲)رب (عزوجل )فرماتاہے:لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُواالْحُسْنٰی وغیرہ ان آیات میں احسان سے کیا مراد ہے جواب ملا کہ اخلاصِ عمل ۔
(۱۳)کہ اگر تو خدا کو دیکھتا توتیرے دل میں کس درجہ اس کا خوف ہوتا اور کس طرح توسنبھل کر عمل کرتا ،ایسے ہی خوف کے ساتھ دل لگا کر درست عمل کر۔
(۱۴) یوں تو ہر وقت ہی سمجھو کہ رب تمھیں دیکھ رہا ہے مگر عبادت کی حالت میں تو خاص طور پر خیال رکھو،توان شاء اللہ عبادت آسان ہوگی ، دل میں حضور اور عاجزی پیدا ہوگی ، آنکھوں میں آنسو آئیں گے اللہ (عزوجل) ہم سب کو اخلاص نصیب کرے (اٰمین )
(۱۵)کہ کس دن،کس تاریخ اور کس مہینے،کس سال ہوگی ، معلوم ہوتاہے کہ جبرائیل امین علیہ السلام کایہ عقیدہ ہے کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ عليہ وآلہٖ وسلم کو اللہ(عزوجل)نے قیامت کا علم دیا ہے کیونکہ جاننے والے سے ہی پوچھا جاتاہے یہاں جبرائیل امین حضور(صلی اللہ تعالیٰ عليہ وآلہٖ وسلم)کے امتحان یااظہارِ عجزکیلئے تو سوال کرنہیں رہے ہیں ، بلکہ یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ عليہ وآلہٖ وسلم کو قیامت کا علم تو ہے مگر اس کا اظہار نہ فرمایا ،خیال رہے کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ عليہ وآلہٖ وسلم نے دوسرے موقعوں پر قیامت کا دن بھی بتادیا ،مہینہ بھی ،تاریخ بھی کہ فرمایا جمعہ کو ہوگی دسویں تاریخ ،محرم کے مہینہ میں ہوگی۔
(۱۶)یہاں علم کی نفی نہیں ورنہ فرمایا جاتا لاَاَعْلَمُ ۔ میں نہیں جانتا بلکہ زیادتی علم کی نفی ہے۔ یعنی اس کا مجھے تم سے زیادہ علم نہیں، مقصد یہ ہے کہ اے جبرائیل علیہ السلام یہاں لوگوں کا مجمع ہے اور قیامت کا علم اسرارِ الٰہیہ میں سے ہے۔یہ راز مجھ سے کیوں