کیونکہ یہ لوگ اسلامی عقائد سے ہٹ گئے۔
(۸)اس میں بظاہرحضرت جبرئیل سے خطاب ہے،اوردرحقیقت مسلمان انسانوں سے،ورنہ فرشتوں پر نماز ،روزہ ،حج وغیر ہ اعمال فرض نہیں رب(عزوجل) فرماتاہے''وَلِلّٰہِ عَلٰی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ''خیال رہے کہ یہ اعمال اسلام کا جزو نہیں کہ ان کا تارک کافر ہوجائے یہاں کمالِ اسلام کا ذکر ہے تارکِ اعمال مسلمان تو ہے مگر کامل نہیں۔
(۹)کیونکہ پوچھنا نہ جاننے کی علامت ہے اور تصدیق کرنا جاننے کی علامت اس سے معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ عليہ وآلہٖ وسلم گذشتہ تمام آسمانی کتابوں سے واقف ہیں کہ رب (عزوجل) نے ضورصلی اللہ تعالیٰ عليہ وآلہٖ وسلمکے بارے میں فرمایا:مُصَدِّقًا لِّمَامَعَکُمْ۔
(۱۰)خیال رہے کہ عَنِ الْاِیْمَان میں ایمان اصطلاحی مرادہے اور اَنْ تُؤْمِن میں ایمان لغوی یعنی ماننا لہذایہ تَعْرِیْفُ الشَّیْءِ بِنَفْسِہٖ بھی نہیں اور اس میں دَوْر بھی نہیں تمام فرشتوں، نبیوں، کتابوں پر اجمالی ایمان کافی ہے گو یا کہ قرآن اور صاحبِ قرآن صلی اللہ تعالیٰ عليہ وآلہٖ وسلم پرتفصیلی ایمان لازم ہے۔
(۱۱)اس طرح کہ ہربری بھلی بات جو ہم کررہے ہیں، اللہ (عزوجل) کے علم میں پہلے ہی سے ہے اور اس کی تحریر ہوچکی ہے تقدیرکے معنی ہیں اندازہ کرنا تقدیر دو قسم کی ہے مبرم اور معلق۔مبرم میں تبدیلی نہیں ہوسکتی جب کے معلق دعا واعمال وغیرہ سے بدل سکتی ہے، جیسا کہ ابلیس کی دعا سے اس کی عمر بڑھ گئی فَاِنَّکَ مِنَ الْمُنْظَرِیْنَ حضرت آدم(علیہ السلام ) کی دعا سے داؤد( علیہ السلام)کی عمر ساٹھ سال کے بجائے سوبرس ہوگئی۔