(الھدایۃ ج۱ص۹۶)اگر ’’حاجتِ اَصلِیَّہ ‘‘کی تعریف پیشِ نظر رکھی جائے تو بخوبی معلوم ہو گا کہ ’’ہمارے گھروں میں بے شمار چیزیں ‘‘ایسی ہیں کہ جو حاجتِ اَصلِیَّہ میں داخِل نہیں چُنانچہ اگر ان کی قیمت ’’ ساڑھے باوَن تولہ چاندی ‘‘ کے برابر پہنچ گئی تو قربانی واجب ہو گی۔ میرے آقااعلیٰ حضرت ،امامِ اہلِسنّت مجدِّدِ دین وملّت مولانا شاہ امام احمد رضاخان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرحمٰن سے سُوال کیا گیا کہ ’’ اگر زید کے پاس مکانِ سُکُونت ( یعنی رہائشی مکان ) کے علاوہ دو ایک اور (یعنی مزید) ہوں تو اس پر قربانی واجب ہو گی یا نہیں ؟ ‘‘الجواب:واجب ہے ، جب کہ وہ مکان تنہا یا اس کے اور مال سے حاجتِ اَصلِیَّہ سے زائد ہو ، مل کر چھپَّن روپے ( یعنی اتنی مالیَّت کہ جو ساڑھے باوَن تولے چاندی کے برابر ہو ) کی قیمت کو پہنچے ، اگرچِہ ان مکانوں کو کرائے پر چلاتا ہو یا خالی پڑے ہوں یا سادی زمین ہو بلکہ ( اگر ) مکانِ سُکُونت اتنا بڑا ہے کہ اس کا ایک حصّہ اس( شخص ) کے جاڑ ے (یعنی سردی اور) گرمی (دونوں ) کی سُکُونت (رہائش)کے لئے کافی ہو اور دوسرا حصّہ حاجت سے زیادہ ہو اور اس ( دوسرے حصّے ) کی قیمت تنہا یا اِسی قسم کے ( حاجتِ اَصلِیَّہ ) سے زائد مال سے مل کر نصاب تک پہنچے ، جب بھی قربانی واجب ہے۔ (فتاوٰی رضویہ ج۲۰ ص ۳۶۱)