کہا:'' کم از کم اس قدر بات تو ضرور ہے کہ یہ بدمذہب ہمارے قبلہ کی طرف منہ کرکے نماز تو ضرور پڑھتے ہیں اور اہلِ قبلہ کو برا کہنے کی ممانعت آئی ہے۔'' ابھی یہ مجلس ختم بھی نہ ہونے پائی تھی کہ فوراً ہی بریلی شریف سے تار پہنچا کہ ''فوراً بریلی آؤ'' وہ گھبرا گئے۔ مولوی محمد حسین صاحب تاجر طلسمی پریس سے مشورہ کیا، انہوں نے کہا :'' فوراً جائیے۔'' چنانچہ بریلی شریف پہنچے آستانہ عالیہ پر حاضر ہو کر سب سے دریافت کیا کسی نے تار بھیجنا بیان نہ کیا۔ سخت تشویش ہوئی، خیال کیا مخالفین کی یہ چال ہے کہ حسین حبیب اللہ میرٹھ سے ہٹ جائیں، اس لیے کہ ان دنوں بعض معاملات چل رہے ہیں۔ آخری بار تار آفس میں گئے، معلوم ہوا کہ یہاں سے تار گیا ہے، لیکن دینے کون آیا تھا یہ یاد نہیں۔ بہت متفکر ہوئے کہ یہ کیا ماجراہے ؟ امام اہلسنّت مجددِدین وملت شاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن نے خود کچھ فرمایانہ ہی اِنہیں جرأت ہوئی کہ کچھ دریافت کرتے ۔ تیسرے دن میرٹھ واپسی کا قصد کیا، اعلیٰ حضرت عَلَیْہِ رَحمَۃُ ربِّ الْعِزَّت مسجد میں تشریف فرما تھے۔ جب اجازت چاہی توفرمایا:''مولانا ! اس آیتِ کریمہ کو تو پڑھئے: