کرکے حُدُودِ مسلمین سے جدا کرلیا تو حامئ سنت، مجدد دین وملت ،رہبر شریعت ،اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان علیہ رحمۃ الرحمن نے ان کے متعلق حکمِ شرعی تقریراً و تحریراً بیان کیا۔اب چاہے تو یہ تھاکہ یہ لوگ فوراً اپنی گستاخیوں سے توبہ کر کے تجدیدِ ایمان کرتے اور راہِ حق کے راہی بن جاتے۔ مگر افسوس! انہوں نے ایسا نہ کیا ۔چنانچہ مجددِ دین وملت، اعلیٰ حضرت عَلَیْہِ رَحمَۃُ ربِّ الْعِزَّت نے اپنا فریضۂ دینی ادا کرتے ہوئے علی الاعلان مسلمانوں کو ان لوگوں کی اصلی صورت سے آگاہ کیا ۔ان طاغُوتوں سے اور توکچھ نہ بن پڑا بس اپنی جگ ہنسائی پر پیچ وتاب کھاتے ہوئے اعلیٰ حضرت عَلَیْہِ رَحمَۃُ ربِّ الْعِزَّت کی مخالفت پر کمر بستہ ہوگئے ۔جب غصہ حد سے سِوا ہوجاتاتو خط میں ایک دو گالیاں لکھ کر اعلیٰ حضرت عَلَیْہِ رَحمَۃُ ربِّ الْعِزَّت کوبذریعہ ڈاک بھیج دیا کرتے اور سمجھتے کہ بہت بڑا کارِ نمایاں کیا۔ ایک مرتبہ اسی طرح گالیوں سے بھرا ہواایک خط آیا ،پڑھنے والے نے چند سطریں پڑھ کرخط علیحدہ رکھتے ہوئے عرض کی:''حضور! کسی بدمذہب نے اپنی دشمنی کاثبوت دیا ہے۔'' حلقۂ ا ِرادت میں شامل ہونے والے ایک نئے مرید وہ خط اُٹھاکر پڑھنے لگے۔ اتفاق کی بات تھی کہ بھیجنے والے کا جو نام اور پتہ لکھا تھا وہ ان صاحب کے اَطراف کا تھا۔ نئے مرید کو بہت زیادہ رنج ہوا۔ اس وقت تو خاموش رہے لیکن جب اعلیٰ حضرت عَلَیْہِ رَحمَۃُ ربِّ الْعِزَّت