تشریف لاتے اور اپنے حالات سے دل برداشتہ ہوکر مُفْلِسی وغربت کی شکایت کیا کرتے ۔ایک دن جب وہ بہت ہی پریشان ومغموم تھے میں نے اُن سے کہا: ''صاحبزادے! یہ ارشاد فرمایئے کہ جس عورت کو باپ نے طلاق دے دی ہو ،کیا وہ بیٹے کے لئے حلال ہوسکتی ہے؟'' انہوں نے فرمایا: ''نہیں۔'' میں نے کہا:''ایک مرتبہ آ پ کے جدِّاعلیٰ امیر المؤمنین حضرت سیدنا علی المرتضٰی شیرِ خدا کَرَّمَ اللہ تَعالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیم نے تنہائی میں اپنے چہرۂ مبارکہ پر ہاتھ پھیر کر ارشاد فرمایا:'' اے دنیا! کسی اور کو دھوکا دے ، میں نے تجھے ایسی طلاق دی جس میں کبھی رجعت نہیں۔'' شہزادے حضور !کیا اس قول کے بعد بھی ساداتِ کرام کاغربت واَفلاس میں مبتلاء ہونا تعجب کی بات ہے !''وہ کہنے لگے: ''واللہ! آپ کی ان باتوں نے مجھے دِلی سکون بخش دیا ۔'' الحمد للہ عَزَّوَجَلَّ اس کے بعدشہزادے نے کبھی بھی اپنی غربت کا شکوہ نہ کیا۔