اَدَب سے سر جھکا کر بڑے ہی مودبانہ اور عشق ومستی کے عالم میں حقیقتِ حال بیان فرمائی۔ حضور میں آپ کے حکْم پر دادا پیر غریبِ نواز علیہ الرحمۃ کے قدم چومنے ہی جھکتا ہوں ، مگر وہاں مجھے آپ کے قدموں کے سوا اور کوئی قدم نظر ہی نہیں آتے۔ لہٰذا میں انہیں قدموں میں جا پڑتا ہوں۔خواجہ غریبِ نواز علیہ الرحمۃ نے ارشا دفرمایا، بختیار (علیہ الرحمۃ) فرید(علیہ الرحمۃ)ٹھیک کہتاہے ۔یہ منزل کے اس دروازے تک پہنچ گیا ہے جہاں دوسرا کوئی نظر نہیں آتا۔ (مقاماتِ اولیاء ،ص۱۸۰)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!واقعی اگر کوئی مُرید حقیقی عشقِ مرشِدکی لازوال دولت پالے اس کے لئے نہ صرف نیکیاں کرنا آسان بلکہ گناہوں سے بھی یکسر جان چُھوٹ سکتی ہے۔
عشقِ حقیقی اس کی مثال یوں سمجھیں کہ کسی شخص کادِل کسی عورت پر آئے اور وہ اس کے عشق میں گرفتار ہوجائے۔ چاہے وہ عورت بد شکل یا سیاہ رنگت والی ہو، مگر عشقِ مَجازی کی بنا پر اُسے اپنی مَحبوبہ کے سامنے دوسری کوئی عورت نہیں سُوجھتی۔چاہے سامنے دُنیا کی ماہِ جبیں ہی کیوں نہ ہو۔اسی طرح اگر کوئی خوش نصیب مُرید اپنے مُرشدِ کامل کی محبت میں عشقِ حقیقی کی منزل پالے اور تصورِ مُرشد میں گُم رہے تو کیا اسے عورت ، ااَمْرَد،بدنگاہی، اور دیگر گُناہ اپنی طرف مائل کرسکتے ہیں؟ ہر گز نہیں! عشقِ حقیقی کی برکت اِنْ شَاءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ اسے مرشِد کے تصوّر میں ایسا گُما دے گی کہ اس کے دل میں گناہ کا خیال تک نہ ہوگا۔
اور اس طرح وہ گناہ سے بچتے ہوئے مرشِد کی مَحبّت کے دعوے میں سچا ہوکر مرشِد کے خصوصی فَیض سے مُستفیض ہوگا۔کیونکہ حضرتِ دَباغ علیہ الرحمۃ ارشاد فرماتے ہیں کہ مرید پیر کی مَحبّت سے کامل نہیں ہوتا۔کیونکہ مرشِد توسب مریدوں پریکساں شفقت فرماتے ہیں۔یہ مرید کی مرشِد سے مَحبّت ہوتی ہے جو اسے کامل کے َدرَجے پر پہنچادیتی ہے۔