آدابِ مرشدِ کامل |
مگر یا د رہیکہ نیک اعمال کے ساتھ ساتھ نظر ربّ کی رَحمت پر ہی ہونی چاہے چنانچہ سَیِّدنا امام غزالی علیہ رحمۃالوالی گذشتہ ارشادات کی وضاحت میں اپنے شاگرد سے فرماتے ہیں کہ(یقینا) بندہ اللہ تعالیٰ کے فضْل وکرم او ر رَحمت سے ہی بہشت میں جائے گا۔ لیکن جب تک بندہ اپنی عبادت و بندگی سے اپنے آپ کو اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رَحمت کے لائق نہیں بنائے گا۔ اس وقت تک اسے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رَحمت نصیب نہیں ہوگی۔ (مجموعۃالرسائل للامام محمد عزالی ، ایھا الولد ، ص ۲۰۸) مزید فرماتے ہیں کہ یہ حقیقت میں نہیں کہہ رہا بلکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے ۔
اِنَّ رَحْمَتَ اللہِ قَرِیۡبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِیۡنَ ﴿۵۶﴾
(ترجمہ قرآن کنز الایمان) بیشک اللہ کی رَحمت نیکوں سے قریب ہے۔(الاعراف :۵۶) اس سے معلوم ہوا کہ گناہوں سے بچنے اور نیکیاں کرنے کی کوشش کرتے ہوئے مرشِد کی مَحبّت کا دعویٰ کرنا دُرُست ہے۔ مگریاد رہے! اسکے علاوہ اور بھی مرشِد کی مَحبّت کے شرائط ہیں۔
مرشِدِ کا مل کے حا سد ین
سَیِّدنا امام شعرانی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں مشائخِ کبار نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ اپنے مرشِد کی مَحبّت کی شرائط میں سے ایک (اہم شرط )یہ ہے کہ مرید اپنے مرشِد کی گفتگو کے عِلاوہ دیگر تمام لوگوں کی گفتگو سننے سے اپنے کان(بند) کرلے۔(یعنی مرشِد کے خلاف ذہن خراب کرنے والے کی گفتگو سُننا تو دُور کی بات نفرت کے باعث اس کے سائے سے بھی بھاگے ) پس مرید کسی بھی مَلامَت کرنے والے کی مَلامَت کو نہ سنے۔یہاں تک کہ اگر