Brailvi Books

آدابِ مرشدِ کامل
36 - 269
دستارِ ولایت کیا سَچ مُچ ایسا ہوسکتا ہے؟کیا میری قسمت کا ستارہ یک بیک اتنی بلندی پر پہنچ جائیگا کہ سرکار صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کے نورانی ہاتھوں کی بَرَکتیں میری پیشانی کو چُھولیں ۔ اپنی طرف دیکھتا ہوں تو کسی طرح اپنے آپ کو اس اعزاز کے قابل نہیں پاتا۔آہ ! اب جب تک زندہ رہوں گا قِیامت کیلئے ایک ایک دن گننا پڑیگا۔ یہ سوچتے سوچتے حضرتِ جُنید (رضی اللہ تعالیٰ عنہ )کی جیسے ہی آنکھ لگی ۔سوئی ہوئی قسمت انگڑائی لے کر جاگ اٹھی ۔سامنے شہدسے بھی میٹھے میٹھے آقامسکَراتے ہوئے تشریف لے آئے۔لب ہائے مبارَکہ کو جُنبِش ہوئی،رَحمت کے پھول جھڑنے لگے۔ الفاظ کچھ یوں ترتیب پائے ''جُنید اٹھو، قِیامت سے پہلے اپنے نصیبے کی سرفرازیوں کا نظارہ کرلو۔ نبی زادوں کے نامُوس کیلئے شکست کی ذلتوں کا انعام قِیامت تک قرض نہیں رکھا جائیگا۔سر اٹھاؤ، تمہارے لئے فتح و کرامت کی دَستار لیکر آیاہوں۔آج سے تمہیں عرفان و تَقَرُّب کی سب سے اونچی بِساط پر فائز کیا گیا۔ بارگاہ ِیَزدانی سے گروہِ اولیاء کی سَروَرِی کا اعزاز تمہیں مبارَک ہو''۔

     ان کَلِمات سے سرفراز فرمانے کے بعد سرکارِ مدینہ، سرورِ قلب و سینہ، فیض گنجینہ، صاحبِ معطر پسینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم نے حضرت جُنیدبَغْدادی (رضی اللہ تعالیٰ عنہ )کو سینے سے لگالیا۔ اس عالمِ کیف بار میں اپنے شہزادوں کے جاں نثار پر وانے کو کیا عطافرمایا اس کی تفصیل نہیں معلوم ہوسکی۔ جاننے والے بس اتناہی جان سکے کہ صبح کو جب حضرتِ جُنید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آنکھ کھلی تو پیشانی کی موجوں میں نور کی کرن لہرارہی تھی۔ سارے بغداد میں آپ کی