پُراَسرار گفتگو حضرت جُنید (رضی اللہ تعالیٰ عنہ )نے جیسے ہی خَم ٹھونک کر زور آزمائی کیلئے پنجہ بڑھایا تواجنبی شخص نے دبی زبان سے کہا۔ کان قریب لائیے مجھے آپ سے کچھ کہنا ہے۔''نہ جانے اس آواز میں کیا سِحر تھا کہ سنتے ہی حضرت جُنید (رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) پر ایک سکتہ طاری ہوگیا ۔ کان قریب کرتے ہوئے کہا ،فرمائیے!اجنبی کی آواز گلوگیر ہوگئی۔ بڑی مشکل سے اتنی بات منہ سے نکل سکی۔جُنید! میں کوئی پہلوان نہیں ہوں۔ زمانے کا ستایا ہوا ایک آلِ رسول ہوں ،سَیِّدہ فاطِمہ (رضی اللہ عنہا)کا ایک چھوٹا سا کنبہ کئی ہفتے سے جنگل میں پڑا ہوا فاقوں سے نیم جان ہے۔ چھوٹے چھوٹے بچے بھوک کی شدت سے بے حال ہوگئے ہیں۔ ہر روز صبح کو یہ کہہ کر شہر آتا ہوں کہ شام تک کوئی انتظام کر کے واپس لوٹوں گا لیکن خاندانی غیر ت کسی کے آگے منہ نہیں کھولنے دیتی۔ شرْم سے بھیک مانگنے کیلئے ہاتھ نہیں اٹھتے۔ میں نے تمہیں صرف اس امید پر چیلنج دیا تھا کہ آلِ رسول کی جو عقیدت تمہارے دل میں ہے۔ آج اس کی آبرو رکھ لو۔ وعدہ کرتا ہوں کہ کل میدانِ قِیامت میں ناناجان صلّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم سے کہہ کر تمہارے سر پر فتح کی دستار بندھواؤں گا۔
اجنبی شخص کے یہ چند جملے نِشتَرکی طرح حضرتِ جُنید(رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) کے جِگَر میں پَیوست ہوگئے پلکیں آنسوؤں کے طوفان سے بوجَھل ہوگئیں، عالم گیر شُہرت و نامُوس کی پامالی کیلئے دل کی پیشکش میں ایک لمحے کی بھی تاخیر نہیں ہوئی۔ بڑی مشکل سے حضرتِ جُنید (رضی اللہ تعالیٰ عنہ )نے جذبات کی طُغیانی پر قابو حاصل کرتے ہوئے کہا''کِشْوَرِ عقیدت کے