(۵) وہ شخص تھوڑا کھانا کھاتا ہو،(۶) تھوڑی نیند کرتا ہو ۔(۷)زیادہ نمازیں پڑھتا ہو۔ (۸)زیادہ روزے رکھتاہو۔(۹)خوب صَدَقہ و خیرات کرتا ہو۔(۱۰) اس کی طبَیْعَتْ میں تمام اچھے اخلاق ہونے چاہیں۔(۱۱) صَبْر۔(۱۲) شُکْر۔(۱۳) تَوَکُّل۔(۱۴) یقین۔ (۱۵)سخاوت۔(۱۶)قَناعَت(۱۷)امانت۔(۱۸)حِلْم۔(۱۹)انکساری۔(۲۰) فرمانبرداری (۲۱) سچائی۔(۲۲) حیاء۔(۲۳) وقار۔(۲۴)سُکون اور (۲۵) اسی قسم کے دیگر فضائل اس کی سیرت و کردار کا جُزو ہونا چاہے۔(۲۶) اس شخص نے نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلم کے انوار سے ایسا نور اور روشنی حاصل کی ہو جس سے تمام بُری خَصلتیں مَثَلاً (1) کنجوسی، (۲)حَسَد،(۳)کینہ،(۴)جَلَن،(۵)لالچ،(۶)دنیاسے بڑی امیدیں باندھنا، (۷)غصّہ (۸)سَرکشی وغیرہ اس روشنی میں ختْم ہوگئی ہوں۔
عِلْم کے سلسلے میں کسی کا محتاج نہ ہو، سوائے اس مخصوص عِلْم کے جو ہمیں پیغمبرِ اسلام صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلم سے ملتا ہے۔ یہ مذکورہ اَوصاف کامل مرشِدوں یا پیرانِ طریقت کی کچھ نشانیاں ہیں ۔ جو رسولِ خداصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلم کی نائبی کے لائق ہیں۔ایسے مرشِدوں کی پَیَروی کرنا ہی صحیح طریقت ہے۔
امام غزالی علیہ الرحمۃ الوالی فرماتے ہیں ۔ ایسے پیر بڑی مشکل سے ملتے ہیں ۔ اگر یہ دولت کسی کو حاصل ہوئی اور یہ توفیق نصیب ہوئی کہ ایسا کامل مرشِد مل گیا اور وہ مرشِد اسے اپنے مریدوں میں شامل بھی کرلے تو اس مرید کے لئے لازم ہے کہ وہ اپنے مرشِد کاظاہری و باطنی اَدَب کرے۔
(مجموعہ رسائل امام غزالی'' ایھا الولد'' ، خطبۃ الرسالۃ ، رقم ۲۶۳)