اعلیٰ حضرت ،امام اَہلسنّت الشاہ امام اَحمد رضاخان علیہ رحمۃالرحمن فرماتے ہیں ، بَیْعَتِ اِرادَت یہ ہے کہ مرید اپنے ارادہ واختیار ختْم کرکے خود کو شَیخ و مرشِد ہادی برحق کے بالکل سِپُر دکردے، اسے مُطْلَقاً اپنا حاکم و مُتَصَّرِف جانے، اس کے چلانے پر راہِ سُلوک چلے، کوئی قدم بِغیر اُس کی مَرَضی کے نہ رکھے ۔اس کے لئے مرشِدکے بعض اَحکام، یااپنی ذات میں خود اسکے کچھ کام، اگر اس کے نزدیک صحیح نہ بھی معلوم ہوں تو انہیں افعالِ خِضَر علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مَثْل سمجھے اپنی عقْل کا قُصور جانے، اس کی کسی بات پر دل میں اعتراض نہ لائے، اپنی ہر مشکل اس پر پیش کرے۔
حضرت خِضَر علیہ السلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سفر کے دوران جو باتیں صادِر ہوتی تھیں بظاہرحضرت موسیٰ علیہ السلام کو جن پر اعتراض تھا پھر جب حضرتِ خِضَر علیہ السلام اس کی وجہ بتاتے تھے تو ظاہر ہوجاتا تھا کہ حق یہی تھا جو انہوں نے کیا) غرض ا سکے ہاتھ میں مردہ بَدَستِ زندہ ہوکر رہے۔یہ بَیْعَتِ سالکین ہے ۔یہی اللہ عَزَّوَجَلَّ تک پہنچاتی ہے۔یہی حضورِ اقدس صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے لی ہے۔(فتا وی افریقہ، ص ۱۴۰ )