جاتے ہیں۔ یا بَیْعَتْ کی تھی مگر خلافت نہ ملی تھی، بِلا اِذْن(بِغیر اجازت)مرید کرنا شروع کردیتے ہیں ۔ یا ٭سلسلہ ہی وہ ہوکہ قَطْع کردیاگیا ،اس میں فیض نہ رکھاگیا، لوگ برائے ہَوَس اس میں اِذْن و خلافت دیتے چلے آتے ہیں یا٭ سلسلہ فی نفسہٖ صحیح تھا ۔مگر بیچ میں ایسا کوئی شخص واقعہ ہوا جو بوجہ اِنتِقائے بعض شرائط قابلِ بیعَت نہ تھا ۔ اس سے جو شاخ چلی وہ بیچ میں مُنْقَطِع(یعنی جُدا) ہے۔ان تمام صورتوں میں اس بَیْعَتْ سے ہر گز اِتِّصال(یعنی تعلق) حاصل نہ ہوگا۔ (بیل سے دودھ یابانجھ سے بچہ مانگنے کی مَت جدا ہے)۔
د وسری شَرْط٭مرشِد سُنّی صحیح العقیدہ ہو۔ بدمذہب گمراہ کا سلسلہ شیطان تک پہنچے گا نہ کہ رسول اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلم تک۔ آج کل بَہُت کھلے ہوئے بددینوں بلکہ بے دینوں کہ جو بَیْعَتْ کے سِرے سے منکر و دشمنِ اَولیاء ہیں، مکاری کے ساتھ پیری مریدی کا جال پھیلا رکھا ہے۔ ہوشیار! خبردار! احتیاط! احتیاط!۔
تیسری شَرْط٭مرشِد عالم ہو۔ یعنی کم از کم اتنا علْم ضَروری ہے کہ بِلا کسی اِمداد کے اپنی ضَروریات کے مسائل کتاب سے نکال سکے ۔کُتب بینی (یعنی مطالَعَہ کرکے)اور اَفواہِ رِجال (یعنی لوگوں سے سن سن کر) بھی عالم بن سکتا ہے،(مطلب یہ ہے کہ فارغُ التحصیل ہونے کی سَنَد نہ شرْط ہے نہ کافی۔ بلکہ علْم ہونا چاہے۔)٭علمِ فِقْہ(یعنی اَحکامِ شریعَت)اس کی اپنی ضَرورت کے قابل کافی۔ ٭اور عقائدِ اَہلسنّت سے لازمی پورا واقف ہو۔٭کُفْرو اسلام ، گمراہی و ہدایت کے فرق کا خوب عارِف (یعنی جاننے والا) ہو۔
چوتھی شرط٭مرشِد فاسِق مُعْلِن(یعنی اعلانیہ گناہ کرنے والا) نہ ہو۔ اس شرط پر حُصولِ اِتِّصال کا تَوَقُّف نہیں(یعنی حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلمسے تعلق کا دارومَدار اس شرط پر