والا ہے۔( روح البیان، الشوری، تحت الآیۃ: ۲۳، ۸/۳۱۲)
اَمْ یَقُوْلُوْنَ افْتَرٰى عَلَى اللّٰهِ كَذِبًاۚ-فَاِنْ یَّشَاِ اللّٰهُ یَخْتِمْ عَلٰى قَلْبِكَؕ-وَ یَمْحُ اللّٰهُ الْبَاطِلَ وَ یُحِقُّ الْحَقَّ بِكَلِمٰتِهٖؕ-اِنَّهٗ عَلِیْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ(۲۴)
ترجمۂکنزالایمان: یا یہ کہتے ہیں کہ انھوں نے اللہ پر جھوٹ باندھ لیا اور اللہچاہے تو تمہارے دل پر اپنی رحمت و حفاظت کی مہر فرمادے اور مٹا تا ہے باطل کو اور حق کو ثابت فرماتا ہے اپنی باتوں سے بے شک وہ دلوں کی باتیں جانتا ہے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: بلکہ یہ کافر کہتے ہیں : اس نے اللہ پر جھوٹ گھڑ لیاہے اور اگراللہ چاہے تو تمہارے دل پر (صبر کی) مہر لگا دے اور اللہ باطل کومٹا تا ہے اوراپنی باتوں کے ذریعے حق کو ثابت فرماتا ہے ۔بیشک وہ دلوں کی باتیں جانتا ہے۔
{اَمْ یَقُوْلُوْنَ افْتَرٰى عَلَى اللّٰهِ كَذِبًا: بلکہ یہ کافر کہتے ہیں : اس نے اللہ پر جھوٹ گھڑ لیاہے۔} اس سے پہلے آیت نمبر3میں بیان ہوا کہ قرآنِ مجید وہ کلام ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف وحی فرمایا ہے اور اب یہاں سے قرآنِ مجید کے بارے میں کافروں کا ایک اعتراض ذکر کیا جا رہا ہے ،چنانچہ اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ کیا نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بارے میں کفارِ مکہ یہ کہتے ہیں کہ انہوں نے نبوت کا دعویٰ کرکے اور قرآنِ کریم کو اللہ تعالیٰ کی کتاب بتا کر اللہ تعالیٰ پر جھوٹ گھڑ لیاہے؟ اس کے جواب میں فرمایا گیا کہ کافروں کا یہ قول بہتان ہے کیونکہ اے نبی! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اگر وہ چاہتا تو آپ کے دل پر مہر لگا دیتا یعنی اگر بالفرض آپ جھوٹی بات گھڑ کر اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرتے تو اللہ تعالیٰ ضرور آپ کے دل پر مہر لگا دیتا(جس سے قرآن آپ کے سینے سے سَلب ہو جاتااور جب اللہ تعالیٰ نے ایسی مہر نہیں لگائی تو معلوم ہو اکہ آپ نے اللہ تعالیٰ پر جھوٹ نہیں باندھا بلکہ کفار یہ دعویٰ کرنے میں جھوٹے ہیں ) یونہی اللہ تعالیٰ کا دستور یہ ہے کہ وہ باطل کو مٹا دیتا اور حق کو اپنے کلام سے ثابت فرماتا ہے ،تو اگر بالفرض آپ