یَجْتَبِیْۤ اِلَیْهِ مَنْ یَّشَآءُ وَ یَهْدِیْۤ اِلَیْهِ مَنْ یُّنِیْبُ(۱۳)
ترجمۂکنزالایمان: تمہارے لیے دین کی وہ راہ ڈالی جس کا حکم اس نے نوح کو دیا اور جو ہم نے تمہاری طرف وحی کی اور جس کا حکم ہم نے ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ کو دیا کہ دین ٹھیک رکھو اور اس میں پھوٹ نہ ڈالو مشرکوں پر بہت ہی گراں ہے وہ جس کی طرف تم اُنھیں بلاتے ہو اور اللہ اپنے قریب کے لیے چن لیتا ہے جسے چاہے اور اپنی طرف راہ دیتا ہے اُسے جو رجوع لائے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اس نے تمہارے لیے دین کا وہی راستہ مقرر فرمایا ہے جس کی اس نے نوح کو تاکید فرمائی اور جس کی ہم نے تمہاری طرف وحی بھیجی اور جس کی ہم نے ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ کو تاکید فرمائی کہ دین کو قائم رکھواور اس میں پھوٹ نہ ڈالو۔مشرکوں پر یہ دین بہت بھاری ہے جس کی طرف تم انہیں بلاتے ہواور اللہ اپنی طرف چن لیتا ہے جسے چاہتا ہے اورجو رجوع کرتا ہے اسے اپنی طرف ہدایت دیتا ہے۔
{شَرَعَ لَكُمْ مِّنَ الدِّیْنِ مَا وَصّٰى بِهٖ نُوْحًا: اس نے تمہارے لیے دین کا وہی راستہ مقرر فرمایا ہے جس کی اس نے نوح کو تاکید فرمائی۔} اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اے میرے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے صحابہ! حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے لے کر میرے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تک جتنے انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تشریف لائے سب کے لئے ہم نے دین کا ایک ہی راستہ مقرر کیا اور اس میں وہ سب متفق ہیں ، وہ راستہ یہ ہے کہ دینِ اسلام کو قائم رکھواور اس میں پھوٹ نہ ڈالو۔ میں نے تمہارے لئے بھی یہی راستہ مقرر کیا ہے لہٰذا تم اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کی فرمانبرداری ، اُس پر اور اس کے رسولوں پر ، اس کی کتابوں پر ، روزِ جزا پر اور باقی تمام ضروریاتِ دین پر ایمان لانا اپنے اوپر لازم کرو کیونکہ یہ اُمور تمام انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی امتوں کے لئے یکساں لازم ہیں ۔( تفسیرکبیر، الشوری، تحت الآیۃ: ۱۳، ۹/۵۸۷، مدارک، الشوری، تحت الآیۃ: ۱۳، ص۱۰۸۴، ملتقطاً)
خلاصہ یہ ہے کہ دین کے اصول میں تمام مسلمان خواہ وہ کسی زمانے یا کسی امت کے ہوں ، یکساں ہیں اور ان میں کوئی اختلاف نہیں ، البتہ احکام میں امتیں اپنے اَحوال اور خصوصیات کے اعتبار سے جداگانہ ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ