1993ء کی بات ہے کہ ایک مرتبہ شبِ جمعہ کے ہفتہ وارسنّتوں بھرے اجتماع سے فراغت کے بعد گھر جاتے ہوئے مجھے کافی دیرہوگئی، رات چونکہ کافی گزر چکی تھی اس لئے سوتے وقت یہ فکر لاحق ہوئی کہ کہیں میری فجر کی نماز قضاء نہ ہو جائے۔ لہٰذا سونے سے قبل میں نے اپنے پیرومرشد شیخِ طریقت، امیرِ اہلسنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کو یاد کیا اور دل ہی دل میں نمازِ فجر باجماعت ادا کرنے کی تمنا لیے نیند کی وادیوں میں جا پہنچا۔ رات کا ایک حصہ گزرنے کے بعد میں خواب میں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک درخت کے پاس بہت سے اسلامی بھائی جمع ہیں میں بھی ان کے درمیان جا بیٹھا۔ اتنے میں وہاں امیرِ اہلسنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ بھی تشریف لے آئے۔ آپ دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ نے میرے کندھے پر شفقت سے ہاتھ رکھا اور ارشاد فرمایا: ’’وہ دیکھو سبز سبز گنبد سے اذان کی آواز آ رہی ہے۔‘‘ میں نے جونہی نظر اٹھائی تو گنبدِخضراء کی نہ صرف زیارت نصیب ہو گئی بلکہ ’’اللہُ اَکْبَرُ اللہُ اَکْبَرُ‘‘ کی پُرکیف صدا ئیں کانوں میں رس گھولنے لگیں۔ ابھی میں یہ دلنشین صدائیں سن ہی رہا تھا کہ میری آنکھ کھل گئی او ر میں نے باجماعت نماز ادا کر لی۔
اللہ عَزَّوَجَلَّ کی امیرِاہلسنّت پَررَحمت ہواوران کے صد قے ہماری مغفِرت ہو۔
صَلُّوْاعَلَی الْحَبِیب! صلَّی اللہُ تعالٰی عَلٰی محمَّد