کوشاں ہیں {۴} کہا کرتے ہیں کہ ہمیں ایک دن ضرور مرنا پڑے گا مگر زندگی کا اندا ز ایسا ہے کہ گویا کبھی مرنا ہی نہیں۔‘‘(عُیونُ الْحِکایات ص۷۵)
پہلادعوٰی’’میں اللہ (عَزَّ وَجَلَّ) کا بندہ ہوں ‘‘
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! واقعی مقامِ غور ہے یقینا ہر مسلمان یہ اقرارکرتاہے کہ میں اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا بندہ ہوں ، اور ظاہِر ہے بندہ ’’پابند ‘‘ ہوتاہے، مگر آج کل اکثر مسلمانوں کے کام آزادوں والے ہیں۔ دیکھئے! جو کسی کا ملازِم ہوتا ہے وہ اُس کی مرضی کے مطابق ہی کام کرتا ہے ، یقیناہم اللہ تَعَالٰی کے بندے ہیں اور اُسی کا رِزق کھا رہے ہیں ، مگرافسوس ہمارے کام کامل بندوں والے نہیں ، اُس کا حکم ہے نماز پڑھو ، مگر سستی کرجاتے ہیں ، رَمَضان کے روزوں کا حکم ہے ،لیکن ہماری ایک تعداد ہے، جو نہیں رکھتی۔ اِسی طرح دیگر اَحکاماتِ خداوندی عَزَّ وَجَلَّ کی بجاآوَری میں سخت کوتاہیاں ہیں۔
دوسرا دعوٰی ’’ اللہ عَزَّ وَجَلَّ ہی روزی دینے والا ہے‘‘
بے شک’’اللہ تَعَالٰی ہی روزی کا کفیل ہے‘‘مگر پھر بھی حصولِ رِزق کا انداز نہایت عجیب وغریب ہے ۔ اللہ تَعَالٰی کو رزاق ماننے اورروزی دینے والا تسلیم کرنے کے باوجود نہ جانے کیوں لوگ سود کا لین دین کرتے ،سودی قرضے لے کر فیکٹریاں چلاتے اور عمارَتیں بنواتے ہیں ! جب اللہ تَعَالٰی کو روزی دینے والا تسلیم کرلیا تو اب کون سی بات رِشوت لینے پر مجبور کرتی ہے ؟ کیا وجہ ہے کہ ملاوٹ والا مال فریب کاری کے ساتھ بیچنا پڑ رہا ہے؟ کیوں چوریوں اور لو ٹ مار کا سلسلہ ہے؟ روزی کے یہ حرام ذرائع آخرکیوں اپنا رکھے ہیں ؟