مرآۃ المناجیح شرح مشکٰوۃ المصابیح جلد ہشتم |
روایت ہے انہیں سے کہ آپ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حلیہ شریف بیان کرتے تو فرماتے تھے ۱؎ کہ نہ تو آپ بہت ہی دراز قد تھے اور نہ بہت ہی پستہ قد ۲؎ قوم میں درمیانہ قد تھے اور نہ تو آپ چھلے والے گھونگر بال تھے اور نہ بالکل سیدھے بال والے آپ کے بال خمدار تھے۳؎ اور نہ آپ بہت موٹے تھے۴؎ نہ بالکل گول چہرے والے آپ کے چہرے میں قدرے گولائی تھی سفید رنگ تھے سرخی پلائی ہوئی خوب کالی آنکھیں دراز پلک ۵؎ موٹی ہڈیوں والے موٹے کندھوں والے ۶؎ جسم شریف صاف ۷؎ بالوں کی باریک ڈوری موٹی ہتھیلیاں موٹے موٹے قدم جب چلتے تو پوری طاقت سے چلتے گویا آپ گہرائی میں اُتر رہے ہیں ۸؎ اور جب اِدھر اُدھر توجہ کرتے تو پوری توجہ کرتے ۹؎ آپ کے کندھوں کے بیچ مہر نبوت تھی اور آپ خاتم النبیین ہیں۱۰؎ لوگوں میں سخی دل لوگوں میں بہت سچی بات والے ان میں نہایت نرم طبیعت والے اور ان میں بہت اچھے برتاؤ والے تھے۱۱؎ جو آپ کو اچانک دیکھتا تو آپ سے ہیبت کرتا اور جو آپ سے خلا ملا کرتا جان کر تو آپ سے محبت کرتا۱۲؎ آپ کا نعت گو کہتا تھا کہ میں نے آپ کی مثل نہ آپ کے پہلے دیکھا نہ آپ کے بعد صلی اللہ علی وسلم۱۳؎(ترمذی)
شرح
۱؎ یہاں وصف سے مراد ہے صورت پاک کی صفات بیان کرنا یعنی حلیہ شریف۔حضور انور کی نعت شریف چند قسم پر ہے: حضور کے نور کا بیان،صورت کا بیان،سیرت و اخلاق کا بیان،گھر والوں سے برتاوے کا بیان،مخلوق سے تعلق کا بیان،رب کی عبادات کا بیان،بندوں سے معاملات کا بیان،حضور کی جود وسخا و کرم نوازیوں کا بیان غرضکہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے ہر حال ہر کمال لازوال کی تعریفیں دریا ناپیدا کنار ہیں۔ زفرق تابہ قدم ہر کجا کہ مے نگرم کرشمہ دامن دل می کشد کہ جا اینجا است ۲؎ ممغط بمعنی ممدود ہے باب افعال کا اسم مفعول ہے یعنی انتہائی دراز لمبے،اور متردد بمعنی انتہائی ہے یعنی بہت ہی پستہ قد۔(مرقات) ۳؎ حضور انور کے بال شریف سیدھے اور کناروں پر خم دار تھے اسے اردو میں کنڈل والے بال کہتے ہیں۔یہ بہت ہی حسین ہوتے ہیں حضور کے بال،کھال،خدو خال،رخسار،گفتار،کردار سب ہی حسین تھے،حضور حسن کے مرکز ہیں جہاں سے حسن تقسیم ہوتا ہے۔ ۴؎ مطہم بہت موٹے کو بھی کہتے ہیں اور بہت دبلے کو بھی یہ لفظ دو ضدوں کے لیے وضع کیا گیا ہے یعنی جیسے حضور انور میانہ قد تھے نہ بہت دراز نہ بہت پستہ قد یوں ہی حضور میانہ جسم تھے نہ بہت بھاری نہ بہت پتلے جسم والے۔ (مرقات) ۵؎ اذعج وہ آنکھ ہے جس کی سفیدی بھی تیز ہو اور پتلی کی سیاہی بھی خوب تیز ہو یہ آنکھ کا بہت حسن ہے،گدلی سفیدی یا بھوری پتلی حسن کے خلاف ہیں،لمبے پلک حسن ہے پلکوں کا چھوٹا ہونا یا بالکل نہ ہونا حسن کے خلاف ہے۔ ۶؎ جلیل بمعنی موٹے یا بھاری،مشاش ہڈیوں کا کنارہ کندھوں کا کنارہ یا کندھے۔ ۷؎ یعنی کلائیوں پنڈلیوں وغیرہ پر بہت بال نہ تھے۔خیال رہے کہ یہ اعضاء شریفہ بالوں سے بالکل خالی نہ تھے جیساکہ دوسری روایت میں ہے۔(مرقات) ۸؎ صبب بلندی کو بھی کہتے ہیں اور نشیبی زمین کو بھی،پہلے صبب بمعنی بلندی گزر چکا یہاں بمعنی گہرائی ہے۔انسان چڑھتے اترتے دونوں حالتوں میں خوب طاقت سے چلتا ہے لہذا دونوں فرمان بالکل درست ہیں کہ سرکار کی رفتار بہت طاقت سے ہوتی تھی جیسے چڑھتے یا اترتے وقت چلا جاتا ہے۔ ۹؎ یعنی اپنے داہنے بائیں کنکھیوں سے نہ دیکھتے تھے بلکہ ادھر دیکھنا ہوتا تو ادھر گھوم کر دیکھتے تھے پوری توجہ سے۔ ۱۰؎ مہر نبوت کی تفصیل پہلے گزرگئی یہ مہر خاتم النبیین ہونے کی علامت تھی اسی لیے کسی نبی کو یہ معجزہ عطا نہیں ہوا کیونکہ ان میں کوئی صاحب خاتم النبیین نہ تھے۔ ۱۱؎ یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا برتاوا اپنے پرایوں سے بہت ہی اچھا تھا،حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کبھی کسی کو تکلیف نہ پہنچی،جب کسی پر سختی کہ تو اللہ کے لیے جیسے جہاد پر کفار مجرمین کو سزائیں۔ ۱۲؎ معلوم ہوا کہ چہرہ انور میں وقار رعب دبدبہ اور ہیبت تھی کہ جو اچانک دیکھتا تو مرعوب ہوجاتا مگر اخلاق کریمانہ ایسے تھے کہ چند روز حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر رہتا تو آپ سے مانوس ہوجاتا،اب بھی روضہ انور پر ہیبت ہے پہلی بار حاضری پر دل تھرا جاتا ہے پھر وہاں سے ہٹنے کو دل نہیں چاہتا حتی کہ وداع کے وقت آنکھوں سے آنسو جاری ہوتے ہیں۔شعر بدن سے جان نکلتی ہے آہ سینے سے ترے فدائی نکلتے ہیں جب مدینے سے روضہ اچھا زائر اچھے اچھی راتیں اچھے دن سب کچھ اچھا ایک رخصت کی گھڑی اچھی نہیں ۱۳؎ حضرات صحابہ کرام تو حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی مثل کیا دیکھتے حضرت جبریل علیہ السلام نے حضورصلی اللہ علیہ وسلم کا مثل نہ دیکھا،دیکھتے کیسے خدا نے حضور کا مثل بنایا ہی نہیں۔حضور انور کی بے مثالی کا مسئلہ ہم نے تفسیرنعیمی پارہ اول میں"اِنَّ اللہَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ"کی تفسیر میں کچھ تفصیل سے عرض کیا ہے جسے کہتے ہیں مسئلہ امتناع النظیر۔ حضور کا مثل ناممکن ہے۔خیال رہے کہ آیت کریمہ"اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ"سے مراد یہ ہے کہ میں تمہاری طرح بشر ہوں اس چیز میں مثل کہ خالص بندہ ہوں مجھ میں الوہیت کا شائبہ نہیں،نہ خدا ہوں،نہ خدا کا جز،نہ خدا کا بیٹا بھائی وغیرہ بلکہ خالص بندہ ہوں۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم خود فرماتے ہیں ایکم مثلی تم میں مجھ جیسا کون ہے یعنی کوئی نہیں۔