مرآۃ المناجیح شرح مشکٰوۃ المصابیح جلد ہشتم |
روایت ہے حضرت ثوبان سے فرماتے ہیں رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ الله نے میرے لیے زمین سمیٹ دی تو میں نے اس کے مشرق و مغرب دیکھے ۱؎ اور میری امت کا ملک وہاں تک ہی پہنچے گا جہاں تک کہ میرے لیے سمیٹ دیا گیا ۲؎ اور مجھے دو خزانے دیئے گئے سرخ و سفید۳؎ اور میں نے اپنے رب سے اپنی امت کے لیے سوال کیا کہ انہیں عام قحط سے ہلاک نہ کرے۴؎ اور ان پر ان کی جماعت کے سوا کوئی دشمن مسلط نہ کرے جو ان کی اصل اکھیڑ دے ۵؎ میرے رب نے فرمایا اے محمد صلی الله علیہ وسلم ہم جب کوئی فیصلہ فرما دیتے ہیں تو وہ رد نہیں ہوسکتا ۶؎ میں نے آپ کو آپ کی امت کے متعلق یہ وعدہ دے دیا کہ انہیں عام قحط سالی سے ہلاک نہ کروں گا اور ان پر ان کی جماعت کے علاوہ کوئی دشمن مسلط نہ کروں گا ۷؎ جو ان کی اصل اکھیڑ دے اگرچہ وہ دنیا کے ہر طرف سے جمع ہوجاویں حتی کہ وہ امتی خود ان کے بعض بعض کو ہلاک کردیں گے اور بعضے بعض کو قیدی کریں گے ۸؎(مسلم)
شرح
۱؎ یعنی ساری زمین مجھے مختصر کرکے دکھادی گئی میرے سامنے رکھ دی گئی۔یہاں مرقاۃ میں ہے کہ ساری زمین حضور انور کے سامنے کردی گئی جیسے آئینہ دار کے ہاتھ میں آئینہ۔(مرقات)حضور انور کو مشرق و مغرب کی سلطنت عطا کی گئی۔(دیکھو اشعۃ اللمعات)اس سے معلوم ہوا کہ زمین و آسمان،مشرق و مغرب حضور انور کی نظر میں بھی ہیں اور حضور انور کے تصرف میں بھی،سمیٹ دینے اور دکھا دینے سے یہ دونوں باتیں ثابت ہوتی ہیں،حاضر ناظر کے یہ ہی معنی ہیں۔مشرق و مغرب دیکھنے کے معنی ہیں کہ میں نے ساری زمین دیکھ لی اس کا کوئی ذرہ چھپا نہیں رہا۔یہاں سمیٹ دینے دکھادینے کا ذکر تو ہوا مگر بعد میں میں چھپالینے کا ذکر نہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کائنات حضور انورکے سامنے ہے۔ ۲؎ یعنی ساری روئے زمین پر میری امت کی سلطنت ہوگی۔زمین کے اکثر حصہ پر مسلمانوں کی بادشاہت رہ چکی ہے، قریب قیامت حضرت امام مہدی و عیسیٰ علیہما السلام کے زمانہ میں تمام روئے زمین پر مسلمانوں کی بادشاہت ہوگی۔ ۳؎ سرخ خزانہ سے مراد ہے کسریٰ شاہ فارس کے خزانے جن میں سونا زیادہ تھا اور سفید خزانہ سے مراد ہے روم کے خزانے جن میں چاندی زیادہ تھی،یہ دونوں ملک حضرت عمر رضی الله عنہ کے زمانہ میں فتح ہوئے اور حضور انور کی پیش گوئی پوری ہوئی۔ ۴؎ یعنی میری امت قحط و بھوک سے ہلاک نہ ہوجائے لہذا اس پر اعتراض نہیں کہ بعض جگہ مسلمانوں پر قحط آجاتا ہے بعض مسلمان بھوک سے مرجاتے ہیں،یہاں عام امت کی ہلاکت مراد ہے۔ ۵؎ بیضہ کے معنی ہیں انڈا بھی اور خود بھی پھر اسے بمعنی اصل استعمال کیا جاتا ہے۔یہاں اس سے مراد مسلمانوں کا وہ دارالسلطنت ہے جس کی تباہی سے مسلم قوم بالکل تباہ ہوجائے خواہ مدینہ منورہ مراد ہو یا کوئی اور جگہ۔حضور کی اس دعا کا ہی اثر ہے کہ اگرچہ مسلمانوں پر کبھی کفار غالب آجاتے ہیں مگر الحمدﷲ انہیں فنا نہیں کرسکتے اور نہ فنا کرسکیں گے،مسلمان اگرچہ گنہگار ہیں مگر حضور صلی الله علیہ وسلم کی اس دعا کے سایہ میں ہیں۔حضور انور صلی الله علیہ وسلم نے تیسری دعا اور بھی مانگی تھی جس کا ذکر دوسری احادیث میں ہے کہ مسلمانوں میں آپس میں جنگ اور خونریزی نہ ہو یہ متفق رہیں اس کے متعلق آگے ارشاد ہے۔خیال رہے کہ اس حدیث میں کفار کی سلطنت کی نفی نہیں بلکہ مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی نفی ہے،کفار مسلمانوں پر بادشاہ تو ہوجائیں گے مگر انہیں بالکل مٹا نہ سکیں گے کہ زمین پر ایک مسلمان نہ رہے۔ ۶؎ یعنی اے محبوب نبی کو چاہیے کہ ایسی دعا نہ فرمائیں جو ہمارے فیصلے کے خلاف ہو کیونکہ ہمارے فیصلہ کے خلاف ہو نہیں سکتا اور ہم یہ پسند نہیں کرتے کہ نبی کی دعا خالی جاوے لہذا نبی ایسی دعا کریں ہی نہیں،آپ کی یہ دونوں دعائیں تو قبول ہیں مگر تیسری دعا کرنے کی آپ کو اجازت نہیں۔ ۷؎ یعنی مسلمان خود آپس میں لڑتے بھڑتے رہیں گے اس لیے کبھی کمزور بھی ہوجائیں گے اور تکلیف بھی پائیں گے اس کا ظہور آج تک ہو رہا ہے۔اس گئے گزرے زمانہ میں بھی مسلمانوں کی اتنی بادشاہتیں موجود ہیں کہ اگر یہ سب متفق ہوجائیں تو کوئی طاقت انہیں دبا نہ سکے مگر یہ ایسے نیک ہیں کہ دو ایک نہیں ہوتے،مسلمانوں کا یہ حال ہے کہ مصرع دل میں دو حرف ہیں اور وہ بھی جدا ایک سے ایک ۸؎ اس فرمان عالی میں اس جانب اشارہ ہے کہ مسلمان آپس میں لڑتے بھڑتے رہیں گے مگر فنا پھر بھی نہ ہوں گے۔