فَہُمْ شُرَکَآءُ فِی الثُّلُثِ مِنۡۢ بَعْدِ وَصِیَّۃٍ یُّوۡصٰی بِہَاۤ اَوْدَیۡنٍ ۙ غَیۡرَ مُضَآرٍّ ۚ وَصِیَّۃً مِّنَ اللہِ ؕ وَاللہُ عَلِیۡمٌ حَلِیۡمٌ ﴿ؕ۱۲﴾ (1)
نے ماں باپ اوراولاد (میں سے) کوئی نہ چھوڑا اور (صرف) ماں کی طرف سے اس کا ایک بھائی یا ایک بہن ہو تو ان میں سے ہر ایک کے لئے چھٹا حصہ ہوگاپھر اگر وہ (ماں کی طرف والے) بہن بھائی ایک سے زیادہ ہوں تو سب تہائی میں شریک ہوں گے (یہ دونوں صورتیں بھی) میت کی اس وصیت اور قرض (کی ادائیگی) کے بعد ہوں گی جس (وصیت) میں اس نے (ورثاء کو) نقصان نہ پہنچایا ہو۔ یہ اللہ کی طرف سے حکم ہے اور اللہ بڑے علم والا، بڑے حلم والا ہے۔
میراث میں جو حصے مقرر کیے گئے، ان کی مقدار کی مکمل حکمت اور مصلحت اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے، ہماری عقل و شعور کو اس کی گہرائی تک رسائی حاصل نہیں ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے حصے بیان کرنے کے بعد واضح طور پر ارشاد فرما دیا کہ
اٰبَآؤُکُمْ وَاَبۡنَآؤُکُمْ لَا تَدْرُوۡنَ اَیُّہُمْ اَقْرَبُ لَکُمْ نَفْعًا ؕ فَرِیۡضَۃً مِّنَ اللہِ ؕ اِنَّ اللہَ کَانَ عَلِیۡمًا
ترجمۂکنزُالعِرفان:تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے تمہیں معلوم نہیں کہ ان میں کون تمہیں زیادہ نفع دے گا، (یہ) اللہ کی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1 …النساء: ۱۲۔