ہمارا خیرات کرنے کاانداز
سُبْحٰنَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ!کیا شان ہے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے نیک بندوں کی جیسا کہ آپ نے ملاحَظہ فرمایاکہ وہ مال ودولت جمع کرنے کے بجائے اِخلاص کے ساتھ خیرات کرنا پسند فرماتے ہیں۔ امیرُ المؤمنین، ناصِرُ المسلمین، پیکر جُودوسخا، مولیٰ مشکل کُشا، شیرِخدا حضرتِ سیِّدُنا علیُّ المُرتَضٰی کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کے پاس 4دِرہم تھے وہ سب راہِ خدا عَزَّ وَجَلَّ میں اِس طرح خیرات کئے کہ ایک دن کو، ایک رات کو، ایک پوشیدہ اورایک ظاہِر کہ معلوم نہیں ، کون سا دِرہم راہِ خدا عَزَّ وَجَلَّ میں زیادہ قبولیَّت کا شرَف پا کر رحمتوں اور برکتوں کی لازوال دولت میں مزید اضافے کا سبب بن جائے۔ دوسری طرف ہماری حالت یہ ہے کہ اگر کبھی صدَقہ وخیرات کرنے کی ہمّت کر بھی لی تو کہاں رضائے الٰہی عَزَّ وَجَلَّ کی نیّت ۔۔۔! کیسا اِخلاص اور کہاں کی لِلّٰہِیَّت ۔۔۔! بس کسی طرح لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ جَناب نے آج اتنے روپے خیرات کر ڈالے ! جب تک ہمارے صدَقہ وخیرات کوشُہرت نہ مل جائے قرار نہیں آتا،مسجد میں کچھ دے دیا تو خواہِش ہوتی ہے کہ اِمام صاحِب نام لے کر دُعا کردیں تاکہ لوگوں کو میرے چندہ دینے کاپتا چل جائے ۔کسی مسلمان کی خیرخواہی کی تو تمنّا یِہی ہوتی ہے کہ اب کوئی ایسی صورت بھی بنے کہ ہمارا نام آ جائے، لوگوں کی زَبانیں ہماری سَخاوت کے ترانے گائیں ،کسی پر اِحسان کیا تو خواہش ہوتی ہے کہ یہ ہمارا خادم بن کر رہے، ہماری تعریفوں کے پُل باندھے حالانکہ قراٰنِ پاک ہمیں احسان نہ جتانے اور اُس کا بدلہ صِرْف اللہ تَعَالٰی کی ذات سے مانگنے کا حکم دے رہا