داخل ہو گیا۔ مدنی ماحول تو کیا اپنایا گویا مجھ پر حوصلہ شِکن آزمائشوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ جب میں سنتوں پر عمل کرتا تو طرح طرح سے میرا مذاق اُڑایا جاتا، مختلف جملے کسے جاتے۔ افسوس صد افسوس ! ایک آدھ مرتبہ تو میرے اپنوں ہی نے مَعَاذَاللہ عَزَّوَجَلَّ میرے سر سے عمامہ شریف اتار کر زمین پر پٹخ دیا۔ مگر اللہ عَزَّوَجَلَّ کے فضل و کرم اور میرے مُرشدِ کریم دَامَت بَرَکاتُہُمُ العَالِیہ کے فیضانِ نظر سے ایسے کَسمَپُرسی کے حالات میں بھی میرے پائے ثُبات میں کوئی جُنبش نہ آئی۔ بالآخر انفرادی کوشش کے ذریعے آہستہ آہستہ جب مجھے اپنے گھر میں مدنی ماحول قائم کرنے میں کامیابی حاصل ہو گئی تو میرے لئے سُنّتوں پر عمل اور مدنی کام کرنے کی راہیں خود بخود ہموار ہوتی چلی گئیں۔ اُسی سال دعوتِ اسلامی کے تحت مدینۃُالاؤلیاء (ملتان شریف) میں ہونے والے سالانہ بین الاقوامی تین روزہ سنتوں بھرے اجتماع کے اختتام پر میں مدنی قافلہ کورس کے لئے باب المدینہ (کراچی) روانہ ہوگیا۔ یہ بیان دیتے وقت نہ صرف میں دعوتِ اسلامی کی علاقائی مشاورت کے رکن کی حیثیت سے مدنی کاموں کی دھومیں مچا رہا ہوں بلکہ اس وقت اَلْحَمْدُلِلّٰہ عَزَّوَجَلَّ 30 روزہ تربیتی اعتکاف میں دعوت اسلامی کے عالمی مدنی مرکز فیضان مدینہ باب المدینہ (کراچی) میں اپنے پیر و مُرشِد شیخِ طریقت، امیرِاہلسنّت دَامَت بَرَکاتُہُمُ العَالِیہ کے قُرب کی